Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی قیادت میں فلسطین کے لیے امن کی کوششیں، اقوام متحدہ میں بھرپور حمایت

سعودی قیادت میں عالمی سطح پر فلسطین کے لیے امن کی کوششوں کو اقوام متحدہ میں بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد کا اعلیٰ سطح کا اجلاس بدھ کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر منعقد ہوا۔
اس عالمی اتحاد کی بنیاد سعودی عرب نے گذشتہ برس رکھی تھی۔
اس اجلاس کی میزبانی سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کایا کلاس اور ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایدے نے مشترکہ طور پر کی۔
اجلاس میں تقریباً 100 ممالک کے وزرائے خارجہ اور سفیروں سمیت نمائندوں نے شرکت کی جنہوں نے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے لیے سعودی اور فرانسیسی کوششوں کی حمایت کی۔
انہوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن دیکھنے کی خواہش کا بھرپور اظہار کیا اور جنگ بندی، حماس کا اسلحہ ترک کرنے اور یرغمالیوں کی واپسی کو فوری شرائط کے طور پر بیان کیا۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اعلیٰ سطح کے اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے نیویارک اعلامیے کی اہمیت پر روشنی ڈالی جو دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے ایک تفصیلی روڈ میپ ہے۔
دستاویز ’ہم سب کے لیے ایک واضح مشن ہے کہ ہم اس اتحاد کو عملی شکل دیں، دو ریاستی حل کی توثیق کریں اور تمام اقدامات کو مدنظر رکھیں۔ ہمارے پاس اعلانات اس وقت تک ہو سکتے جب تک کہ یہ حقیقت پر مبنی کام نہ ہو جائے۔
انہوں نے غزہ جنگ کے خاتمے پر فلسطین اتھارٹی (پی اے) کو مقبوضہ علاقوں کی واحد حکومت بننے کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔
شہزادہ فیصل نے کہا کہ ’ہم واضح وقت کے پابند شیڈول میں نگرانی کے لیے بین الاقوامی اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ ہم (فلسطینی) صدر محمود عباس کی حمایت بھی کرنا چاہیں گے اور ہم سخت حالات کے باوجود ان کی کوششوں کو سراہنا چاہیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مملکت اپنے سفارتی اور انسانی ہمدردی کے کام کو جاری رکھے گی تاکہ فلسطینی سرحدوں کو 1967 کی خطوط کے مطابق بحال کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کایا کلاس نے عالمی اتحاد پر زور دیا کہ وہ اپنے قیام کے ایک سال بعد دو ریاستی حل کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرے۔
انہوں نے کہا کہ بدھ کی اعلیٰ سطح کا اجلاس ’ایک انتہائی چیلنجنگ عالمی ماحول میں ہو رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ غزہ میں زمینی صورتحال تباہ کن اور ناقابل برداشت ہے، اور یہ غزہ بلکہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینی عوام کے لیے مصائب اور موت کی بے مثال سطح کو پہنچ رہی ہے۔‘
کایا کلاس نے مزید کہا کہ اگرچہ ’ہمارے مطالبات اور جنگ بندی کی کوششوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، مجھے کل (امریکی) صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ کے ساتھ عرب رہنماؤں کی ملاقات کے بعد کچھ اُمید نظر آئی ہے۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ اس سے ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی ’تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور بالآخر لڑائی کے مستقل خاتمے اور انسانی مصائب کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔ اگر غزہ کا کوئی فوجی حل ہوتا تو جنگ پہلے ہی ختم ہو چکی ہوتی۔‘
کایا کلاس نے مزید کہا کہ ’ہم اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے انسانی ہمدردی کی رسائی کو بڑھانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین نے آئندہ تین برسوں میں فلسطینی اتھارٹی کی مدد کے لیے 1.9 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ہم نے ایک فلسطینی ڈونر گروپ شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کایا کلاس کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سب جن کے اسرائیل کے ساتھ ورکنگ ریلیشن ہیں، اسرائیلی حکومت کو اس بات پر قائل کرنے کی پوری کوشش کریں کہ یہ جنگ ان کے مفادات کی تکمیل نہیں کرتی۔‘
فلسطینی وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو کے ذریعے اجلاس سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں سعودی عرب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو نہ صرف فرانس کے ساتھ مل کر اعلیٰ سطح کی بین الاقوامی کانفرنس کے شریک چیئرمین بلکہ اس عالمی اتحاد کی محرک قوت کے طور پر شاندار قیادت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’نیویارک اعلامیے نے ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے لیے ایک فوری اور ناقابلِ واپسی راستہ طے کیا ہے۔ میرے خیال میں ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اعلامیے میں بیان کردہ اقدامات کو یہاں موجود تمام ریاستوں کی جانب سے پالیسیوں اور عملی اقدامات میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔‘
فلسطینی وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے مزید کہا کہ ’ہمیں ان اقدامات کے لیے زیادہ تیزی سے، زیادہ فیصلہ کن اور زیادہ اجتماعی طور پر کام کرنا چاہیے۔‘
ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایدے نے کہا کہ ’ناروے ہمیشہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا چاہتا تھا، جو اس نے پچھلے سال کیا۔
انہوں نے کہا کہ نیویارک اعلامیہ ایک منصوبے کے عناصر فراہم کرتا ہے کہ ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میری آپ سے اپیل ہے کہ ہم اس پر کام جاری رکھیں۔‘

 

شیئر: