سپین اور اٹلی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی بحریہ کے جہاز اس مقام کی طرف روانہ کر رہے ہیں جہاں ایک فلوٹیلا (کشتیوں کا ایک قافلہ) اسرائیل کی غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب فلوٹیلا میں موجود انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام عائد کیا کہ یونان کے قریب ان پر ڈرون حملے کیے گئے۔
مزید پڑھیں
گلوبل صُمود فلوٹیلا نے جمعے کو بتایا کہ وہ غزہ کی طرف آخری سفر کے لیے تیار ہے، حالانکہ انہیں ڈرونز اور کمیونیکیشن جامنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ کشتیوں پر یا ان کے آس پاس دھماکے بھی ہوئے، جن سے چند کشتیوں کو نقصان پہنچا، تاہم کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔
فلوٹیلا کا مقصد کیا ہے؟
منتظمین کے مطابق اس فلوٹیلا میں 52 چھوٹی بڑی کشتیاں شامل ہیں جن میں درجنوں ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن سوار ہیں۔ وہ علامتی طور پر انسانی امداد لے جا رہے ہیں، جن میں خوراک اور ادویات شامل ہیں، تاکہ محصور غزہ کے عوام تک یہ سامان پہنچایا جا سکے۔
23 ماہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں غزہ ایک انسانی بحران کا شکار ہو چکا ہے، جہاں بیشتر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ نے غزہ کے سب سے بڑے شہر میں قحط کا اعلان کر دیا ہے۔
کارکنوں کو امید ہے کہ ان کی یہ کوشش دنیا کی توجہ فلسطینیوں کی حالتِ زار کی طرف مبذول کروائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے کی اب تک کی سب سے بڑی کوشش ہے، جو گذشتہ 18 برسوں سے جاری ہے، یعنی موجودہ جنگ سے بھی پہلے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ناکہ بندی کا مقصد حماس کو ہتھیاروں کی درآمد سے روکنا ہے، جبکہ ناقدین اسے اجتماعی سزا قرار دیتے ہیں۔
کشتیوں کا سفر
یہ کشتیوں کا قافلہ یکم ستمبر کو سپین سے روانہ ہوا، اور بحیرہ روم عبور کرتے ہوئے دیگر ممالک کی کشتیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ فلوٹیلا میں کچھ بڑی کشتیاں شامل ہیں جو چھوٹی کشتیوں کو سہولت فراہم کر رہی ہیں۔
ان کشتیوں میں سوار افراد میں مشہور شخصیات بھی شامل ہیں، جیسے سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، بارسلونا کی سابق میئر ادا کولاو، اٹلی اور یورپی پارلیمنٹ کے اراکین اور سابق فوجی اہلکار، ڈاکٹرز، مذہبی شخصیات اور وکلا۔
جمعرات کو فلوٹیلا یونان کے جنوب میں موجود جزیرے کریٹ کی طرف سفر کر رہا تھا منتظمین کو امید ہے کہ وہ ایک ہفتے میں غزہ پہنچ جائیں گے۔
ڈرون حملے
منتظمین کے مطابق اب تک کم از کم تین واقعات میں ڈرون حملے کیے گئے، دو تیونس میں (8 اور 9 ستمبر کو) اور ایک یونان کے جنوب میں بدھ کی صبح کو۔
فلوٹیلا کا کہنا ہے کہ تازہ حملے میں اسے ’نامعلوم ڈرونز اور کمیونیکیشن جامنگ‘ کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ’کم از کم 13 دھماکوں‘ کی آوازیں سنی گئیں، اور 10 سے زائد کشتیوں پر ’نامعلوم اشیا‘ گرائی گئیں۔
اگرچہ کوئی زخمی نہیں ہوا، مگر کشتیوں کو نقصان اور کمیونیکیشن میں خلل رپورٹ ہوا۔ گریٹا تھنبرگ نے جمعرات کو کہا کہ وہ توقع کر رہی ہیں کہ حملے مزید بڑھ سکتے ہیں، مگر ’ہم اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
اسرائیل کا انتباہ
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ سپین اور اٹلی کی جانب سے امدادی جہازوں کی روانگی پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن فلوٹیلا کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے اہلکار ایڈن بار تال نے کہا کہ ’اس فلوٹیلا کا حقیقی مقصد اشتعال انگیزی اور حماس کی مدد کرنا ہے، نہ کہ انسانی ہمدردی۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر کارکنوں نے زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی، تو اس کی مکمل ذمہ داری منتظمین پر ہو گی۔‘
سپین اور اٹلی کی تیاری
سپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی بحریہ کا جہاز فُرور کارتاخینا سے روانہ کر رہا ہے۔ اٹلی نے بھی اقوامِ متحدہ میں وزیرِاعظم جورجیا میلونی کی سخت تقریر کے بعد ایک بحری جہاز فلوٹیلا کی مدد کے لیے روانہ کیا ہے۔
اطالوی وزیر دفاع گیڈو کروسیٹو نے فلوٹیلا سے اپیل کی کہ وہ امداد قبرص میں اتار دیں، جہاں سے اٹلی یا کیتھولک چرچ اسے غزہ پہنچا سکتا ہے۔ تاہم منتظمین نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور غزہ جانے کے عزم کا اعادہ کیا۔