سعودی فلمساز شھد امین کے لیے بین الاقوامی سٹیج پر اپنا کام پیش کرنا ذاتی کارنامے سے بڑھ کر ہے۔ ان کے لیے یہ ثقافت کا ایک اظہار ہے۔
شھد امین کی تازہ ترین فلم ’ہجرہ‘ جس کا موضوع کئی نسلوں پر محیط خواتین کی شناخت کی تلاش ہے، حال ہی میں 82 ویں وینس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی جو مملکت کو عالمی سنیما کے نقشے پر زیادہ توانائی سے لے آئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی فلمسازوں کیلئے برٹش کونسل میں پروگرامNode ID: 519596
-
تیسرا سعودی فلم کونفیکس آئندہ ماہ ریاض میں ہوگاNode ID: 894063
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وینس (فیسٹیول) جیسی جگہ میں کسی چیز کا دیکھا جانا بہت ہی خاص ہے۔‘
ان کے لیے فخر کی بات یہ نہیں کہ ان کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’معاملہ ان کی ذات سے کہیں بڑھ کر ہے ۔یہ اس بات کا مظاہرہ ہے کہ سعودی کہانیوں کی بھی اتنی ہی ’جذباتی اہمیت‘ ہے اور ان میں بھی روحانی طور پر گہرا اثر چھوڑنے والا تجربہ اور سنیما سے متعلق ایک عزم ہے۔‘
’ہجرۃ‘ کو سعودی فلم کمیشن کا تعاون حاصل ہے جس کی کوشش ہے کہ مقامی فلموں کو بین الاقوامی سطح تک پہنچایا جائے۔

یہ فلم اپنے مخصوص انداز میں امین کی پہلی فلم ’سکیلز‘ (جسے کافی پسند کیا گیا تھا) سے ہٹ کر ہے جس میں اساطیری علامتوں سے کام لیا گیا تھا۔
سعودی فلم میکر کے مطابق ان کی تازہ ترین فلم یہ تلاش کرتی ہے کہ مختلف نسلوں میں خواتین اپنی شناخت کو کیسے دیکھتی ہیں۔
شھد امین کے مطابق ’یہ ان خواتین کی کہانی ہے جو اپنی تلاش میں ہیں۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ وہ کون ہیں اور یہ کہ ان کے لیے آزادی کا کیا مطلب ہے۔‘
’سکیلز‘، اساطیری ڈھنگ پر مبنی تھی جبکہ ’ہجرۃ‘ میں قربت کا رنگ ہے۔ یہ وہ سفر ہے جسے ہم اپنی ذات کی تلاش کے لیے اختیار کرتے ہیں اور یہ فلم تلاشِ ذات کے سفر کی ’قیمت‘ کے بارے میں ہے۔‘

شھد امین کے کام کا مرکزی موضوع سعودی عرب میں وسیع طور پر رائج خیالات کو چیلنج کرنا ہے۔ وہ اس آئیڈیا کو مسترد کرتی ہیں کہ سعودی کہانیاں دو نظریات یا تصورات کے گرد گھومتی ہیں۔ یا وہ ظلم اور جبر کی بات کرتی ہیں یا پھر غیر مانوس ثقافتوں، اجنبی تہذیبوں اور ماحول کو پُرکشش بناکر پیش کرتی ہیں۔
’میں اس بیانیے سے آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ ہماری زندگیاں تہہ در تہہ ہیں۔ ہماری خواتین نسبتاً پیچیدہ ہیں اور ہماری ثقافت بتدریج ایسے انداز سے تشکیل پا رہی ہے جس میں معنی اور مفہوم کے باریک اور نازک فرق کو سمجھا جانا چاہیے۔
ان کا مقصد سعودی ثقافت کی توضیح نہیں بلکہ ایسے کرداروں کے ذریعے اس کا اظہار ہے جو اصلی محسوسں ہوں، جن سے غلطیاں ہوں جو جو جذباتی طور پر زندگی کے صحیح عکاس ہوں۔

’ہجرہ‘ کے ذریعے، شھد امین ’ہماری زندگیوں میں پایا جانے والا صوتی توازن‘خاموش رسمیں، خواتین کے درمیان اظہار کے جذباتی اشارے جن کی کوئی زبان نہیں اور وہ منظر جو یاد میں سرایت کر چکا ہے، سامنے لاتی ہیں۔
’ہماری ثقافت میں ایک نرمی ہے جس کا ذکر اکثر نہیں ہوتا۔ مجھے امید ہے لوگ سعودی عرب کی سنبھلنے اور کامیابی حاصل کرنی کی خوبصورتی اور ہمارے انتخاب کی پیچیدگی کو محسوس کریں گے۔‘
شھد امین فلم پروڈکشن میں بامعنی تبدیلی کے بارے میں کھلے دل سے بات کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فلم کی شوٹنگ آٹھ شہروں میں ہو گی جس کے لیے وقت کم اور وسائل کم تر ہیں۔ وہ ’ہجرہ‘ کے مکمل ہونے کو سعودی عرب کے فلم انفراسٹرکچر میں تیزی سے ہونی والی تبدیلیوں سے منسوب کرتی ہیں۔

ان کے بقول ’سعودی عرب میں فلم کے لیے ماحول اور گنجائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سعودی فلم کمیشن سے ہماری شراکت انتہائی لازمی تھی۔ انھوں نے اجازت نامے حاصل کرنے، شوٹنگ کے لیے لوکیشنز تلاش کرنے اور فنڈنگ میں بھی ہماری مدد کی۔ ہمارے بجٹ کا زیادہ تر حصہ ان کے تعاون کا مرہونِ منت ہے۔‘
انھوں نے ’فلم العلا‘ اور نیوم سے ملنے والے تعاون کو بھی نمایاں کیا اور اسے ان اداروں کے ساتھ ’اشتراک کی ایک کوشش‘ قرار دیا جو ’حقیقت میں سعودی سنیما کے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں۔‘
شھد امین کے نزدیک اِستِناد لازمی ہے اور وہ مقامی اور بین الاقوامی موضوعات میں تصنع کے ساتھ توازن پیدا کرنے کے خیال کو مسترد کرتی ہیں۔

’میں توازن کا نہیں سوچتی، بلکہ میری سوچ سچائی کی سمت جھکتی ہے۔ میں سعودی لینز کے ساتھ لکھتی ہوں لیکن میری تحریر میں وہ خواہشیں ہیں جو جانے کب سے دل میں رہ رہی ہیں۔۔۔میری تحریر میں جو ہو چکا اس نقصان اور دکھ کا درد بھی ہے، بغاوت کی چنگاری بھی ملتی ہے اور محبت کی آبشاریں بھی بہتی ہیں۔ یہ باتیں علاقوں سے تعلق نہیں رکھتیں، یہ انسانوں سے متعلق ہیں۔‘
سعودی سینما کی نئی لہر میں ایک معتبر آواز کے طور پر شھد امین دوسروں کے لیے راستہ بنانے کے اپنے کردار سے آگاہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’کامیابی سے راہیں کھلتی ہیں‘ اور انھیں امید ہے کہ کامیابیاں، تجربے، رہنمائی اور انفراسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری کا کام دیں گی جس سے بے تحاشا مقامی ٹیلنٹ کے لیے مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔‘

سمجھتی ہیں کہ ان کا کیریئر، ’بیانیے کو پھر سے لکھنے‘ کا ایک موقع ہے نہ صرف خود ان کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی۔ میرے پاس سینیمائی اثر والے آئینے نہیں تھے لیکن اب میں دوسروں کی رہنمائی کے لیے یہ آئینے اٹھا سکتی ہوں۔‘
شھد امین سعودی تجربے میں رچی بسی کہانیاں سنانے کے لیے پُر عزم ہیں اور سمجھتی ہیں کہ سعودی عرب ’فلمیں بنانے کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ دلکش اور دل لبھانے والی جگہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے بارے میں بات کریں۔ اور یہی بات سب سے اہم ہے۔‘