حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسے ابھی تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی سے متعلق پلان موصول نہیں ہوا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل نے غزہ پر حملے مزید تیز کر دیے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کی جانب سے یہ بیان اسرائیلی اخبار ہارٹیز کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں سورسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ کی منصوبہ بندی کے تحت حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے جس کے بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدی چھوڑے جائیں گے اور پھر مرحلہ وار طور پر اسرائیلی فوجیں غزہ سے نکل جائیں گی۔
مزید پڑھیں
-
غزہ جانے والے بین الاقوامی فلوٹیلا کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟Node ID: 895106
ہارٹیز کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پلان کی تجاویز میں غزہ سے حماس کی حکمرانی کے خاتمے، اسرائیل کی جانب سے علاقے کو ساتھ نہ ملانے اور وہاں سے فلسطینیوں کو نہ نکالنے پر رضامندی کے نکات بھی شامل تھے۔
حماس کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ’ابھی تک حماس کے سامنے کوئی پلان نہیں رکھا گیا ہے۔‘
جمعے کو واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’ایسا لگ رہا ہے کہ غزہ کے معاملے سے متعلق معاہدہ ہمارے ہاتھ میں آ گیا ہے۔‘
انہوں نے اس کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ اس کے لیے کسی ٹائم ٹیبل کا کوئی اشارہ دیا۔
علاوہ ازیں اسرائیل کی جانب سے بھی ابھی تک صدر ٹرمپ کے بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پیر کو صدر ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں، جو دائیں بازو کے ایک سخت گیر اتحاد کے سربراہ ہیں اور حماس کی مکمل تباہی تک غزہ کی جنگ ختم کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
جمعے کو صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ غزہ کے معاملے پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بات چیت ہوئی اور ضرورت پڑنے پر اس کا سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس ہفتے متعدد مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں کے سامنے کچھ تجاویز رکھی ہیں جن میں مشرق وسطیٰ میں امن کا 21 نکاتی منصوبہ بھی شامل ہے۔
دوسری جانب غزہ میں لڑائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے جہازوں نے مختلف مقامات پر 120 حملے کیے ہیں جبکہ غزہ کے شعبہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے 24 گھنٹے کے دوران اسرائیلی حملوں سے کم از کم 74 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ایکس پر ایک پوسٹ میں غزہ شہر سے رہائشیوں کے انخلا کا مطالبہ دوہرایا۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تخمینے کے مطابق اسرائیل کی جانب سے چند ہفتے قبل شروع کی جانے والی وسیع زمینی کارروائی کے بعد سے ساڑھے تین سے چار لاکھ تک فلسطینی علاقے کو چھوڑ کر نکل گئے ہیں تاہم ابھی بھی وہاں پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔
دو سال قبل حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑا بڑا فوجی آپریشن شروع کیا تھا جس کا سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملوں میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
غزہ کے شعبہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک اسرائیلی حملوں سے 65 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ملک کی ساری آبادی ہی در بدر ہے جبکہ صحت کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا ہے۔