اقوام متحدہ نے یورپی طاقتوں کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد تہران پر پابندی بحال کر دی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سکیورٹی کونسل میں یورپی طاقتوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے عمل کے بعد عالمی ادارے نے ایران کو ہتھیار بیچنے اور تہران پر دیگر پابندیاں بحال کر دی ہیں۔
ایران کی حکومت نے یورپی ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ اُن کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں
-
شام پر عائد پابندیاں ختم، صدر ٹرمپ نے حکم نامے پر دستخط کر دیےNode ID: 891682
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران پر 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام میں پابندیوں کی بحالی کی کارروائی کا آغاز کیا جس کا مقصد تہران کو جوہری بم بنانے سے روکنا تھا۔
ایران جوہری ہتھیار بنانے کی تردید کرتا آیا ہے۔
لگ بھگ ایک دہائی قبل ایران اور برطانیہ، جرمنی، فرانس، امریکہ، روس اور چین نے ایک جوہری معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ امریکہ بعد ازاں اس معاہدے سے نکل گیا تھا تاہم اب اس معاہدے کے خاتمے سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کے چند ماہ بعد یہ تازہ پیش رفت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنہ 2006 اور سنہ 2010 کے دوران ایران پر پابندیوں کی قراردادیں منظور کی تھیں۔ اقوام متحدہ کی یہ پابندیاں طویل عرصہ معطل رکھے جانے کے بعد سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات رات بحال کر دی گئیں۔
ایران پر تمام پابندیوں کی بحالی کو روکنے کی کوششیں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر رواں ہفتے ناکام ہو گئیں۔
فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ڈیڈلائن گزرنے کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’ہم ایران اور تمام ریاستوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان قراردادوں کی مکمل پابندی کریں۔‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے اتوار کو ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ یہ بلاک ’اب بغیر کسی تاخیر کے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جوہری پروگرام سے متعلق تمام پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔‘
اسرائیل نے ایران پر عالمی پابندیوں کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کو ایک ‘بڑی پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔
روس نے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو متنازع قرار دیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ غیرقانونی ہیں اور ان پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔‘