اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایران نے جوہری تنصیبات سے متعلق ایک نئے تعاون کے فریم ورک پر اتفاق کیا ہے جس میں ملک کی تمام جوہری تنصیبات اور سہولیات شامل ہیں۔
سعودی وزارتِ خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان مشترکہ تعاون کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کا خیر مقدم کیا ہے۔
یہ معاہدہ منگل کو ایران اور (آئی اے ای اے) کے درمیان طے پایا ہے۔ ایران نے جون میں اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد ادارے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا۔
جون میں 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، جن تک آئی اے ای اے کو اس وقت سے رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ کے ساتھ جاری معاملات ناقابلِ حل ہیں: ایرانی سپریم لیڈرNode ID: 893728
گروسی نے ویانا میں بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں بتایا کہ یہ معاہدہ ’معائنے کے طریقہ کار کے بارے میں واضح سمجھ بوجھ فراہم کرتا ہے‘ اور ’تمام متاثرہ تنصیبات، بشمول وہاں موجود جوہری مواد، کی رپورٹنگ کو بھی شامل کرتا ہے۔‘
ایران کی جانب سے تعاون کی معطلی کے بعد آئی اے ای اے کے معائنہ کار ملک چھوڑ گئے تھے، تاہم گذشتہ ماہ ایک ٹیم نے بوشہر جوہری پاور پلانٹ میں ایندھن کی تبدیلی کی نگرانی کے لیے مختصر دورہ کیا۔
اب جوہری تنصیبات تک رسائی کے لیے ایران کی سپریم کونسل کی منظوری درکار ہے، اور حالیہ معائنے میں فردو اور نطنز جیسے اہم مقامات تک رسائی نہیں دی گئی، جو جون کے حملوں میں نشانہ بنے تھے۔
گروسی نے کہا کہ ’ایران اور ادارہ اب ایک باعزت اور جامع انداز میں تعاون دوبارہ شروع کریں گے۔‘
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے منگل کو خبردار کیا کہ اگر ایران کے خلاف کوئی اقدام کیا گیا تو آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون ختم کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں زور دیتا ہوں کہ اگر ایران کے خلاف کوئی دشمنی کا اقدام کیا گیا، بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی معطل شدہ قراردادوں کی بحالی، تو ایران ان عملی اقدامات کو ختم سمجھتا ہے۔‘
اگست میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کی 2015 کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزیوں کے باعث اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کے اقدامات شروع کیے تھے، جسے ایران نے ’غیرقانونی‘ قرار دیا اور خبردار کیا کہ اس سے یورپی طاقتیں مستقبل کے مذاکرات سے باہر ہو سکتی ہیں۔
ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جبکہ مغربی ممالک الزام لگاتے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے جس کی ایران مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔