بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ جنوب مشرقی سرحدی علاقے میں ’غیرملکی‘ ہتھیار تشدد کو ہوا دے رہے ہیں جس میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں جب سکیورٹی فورسز نے ایک خاتون کے ساتھ حالیہ مبینہ زیادتی پر مشتعل مظاہرین کو روکا تو جھڑپیں شروع ہوئیں اور تین افراد مارے گئے۔
فوج نے باغیوں پر الزام عائد کیا جبکہ مظاہرین نے فوجیوں پر فائرنگ کا الزام لگایا۔
مزید پڑھیں
-
بنگلہ دیش میں انسداد اندھاپن منصوبہ، 4 ہزار مریضوں کا معائنہNode ID: 894607
بنگلہ دیش اس وقت سے سیاسی بحران کا شکار ہے جب طلبا کی زیرقیادت مظاہروں نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو گذشتہ سال انڈیا فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے سربراہ جہانگیر عالم چودھری نے مزید تفصیلات بتائے بغیر الزام لگایا کہ ’ہتھیار ملک سے باہر سے آرہے ہیں اور شرپسند پہاڑوں کی چوٹیوں سے فائرنگ کر رہے ہیں۔‘
یہ علاقہ طویل عرصے سے مقامی برادریوں اور بنگالی بولنے والوں کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے، جہاں زمین اور وسائل کو لے کر جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
مظاہرین نے کہا کہ وہ 23 ستمبر کو ایک مقامی خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی پر ناراض ہیں۔
مظاہرین میں شامل ایک طالب علم نے کھگرا چاری ضلع میں اتوار کی ریلی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پرامن طریقے سے مظاہرہ کر رہے تھے، ریلیاں نکال رہے تھے اور سڑکوں کی ناکہ بندی تک محدود تھے۔ فوج نے گولیاں چلائیں جس سے ہم میں سے کم از کم تین افراد ہلاک اور ایک درجن زخمی ہوئے۔‘ تاہم فوج نے ذمہ داری سے انکار کیا ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے یونائیٹڈ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (یو پی ڈی ایف) پر الزام لگایا ہے کہ وہ باغی گروہ ہے جس نے تشدد کو ہوا دی اور سینکڑوں گولیاں چلائیں۔
باغیوں نے 1997 کے امن معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے دہائیوں تک طویل بغاوت کی لیکن یو پی ڈی ایف نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا اور خود مختاری اور فوجی اڈوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ جاری رکھا۔
بدامنی عبوری رہنما محمد یونس کے لیے ایک چیلنج ہے جنہیں فروری میں ہونے والے انتخابات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ 2024 میں عوامی بغاوت کے بعد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے۔