Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شکار کیسے کریں‘، چترال میں آبی پرندوں کے لیے مصنوعی تالاب بنانے پر پابندی

ایک اجلاس میں شکاریوں نے ضلعی انتظامیہ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے (فوٹو: ثمیر خان)
خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دریاؤں کے کنارے مصنوعی بند باندھ کر تالاب بنانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ضلعی انتظامیہ اپر اور لوئر چترال نے اپنے اعلامیے میں یہ کہا ہے کہ دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے بطخوں سمیت آبی پرندوں کے لیے تالاب بنانے پر دو ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر اپر چترال کے مطابق دریا کے کنارے تالاب بنانے سے دریا کا بہاؤ متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس کے باعث مکانات، کھیتوں اور درختوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے خلاف ورزی کرنے والے شکاریوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت جاری کی ہے۔
شکاریوں کا انتظامیہ کا فیصلہ ماننے سے انکار
چترال میں ضلعی انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف گذشتہ روز اتوار کو ہنٹرز ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ اپر چترال میں ہونے والے اس اجلاس میں شکاریوں نے ضلعی انتظامیہ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مرغابیوں کا شکار مقامی روایت کا حصہ ہے جس کے لیے باقاعدہ محکمہ وائلڈ لائف سے پرمٹ حاصل کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈپٹی کمشنر نے شکاریوں سے مشاورت کے بغیر یہ فیصلہ کیا جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔‘
شکاری شکیل احمد نے مؤقف اپنایا کہ ’شکار کا سیزن تین مہینے کے لیے ہوتا ہے جس میں مقامی شکاری قانونی طریقے سے حصہ لیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شکاری اپنی زمینوں پر تالاب بناتے ہیں جس سے کسی دوسرے شہری کے نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا۔ سیلاب اگر آتا بھی ہے تو اس سے کسی کی زمین کو نقصان نہیں ہوتا۔‘

چترال سمیت پہاڑی علاقوں میں آبی پرندوں کے شکار کے لیے پانی کے قریب مصنوعی تالاب قائم کیے جاتے ہیں (فوٹو: وائلڈ لائف کے پی)

شکیل احمد نے مزید کہا کہ ’دریاؤں میں طغیانی ان مقامات پر بھی آئی ہے جہاں تالاب موجود نہیں تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تالابوں پر اچانک پابندی عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ تمام شکاری اس فیصلے سے ناخوش ہیں، ڈپٹی کمشنر کو چاہیے کہ وہ  ہمارے تحفظات سنیں۔‘
اپر چترال کی تحصیل مستوج کے چیئرمین سردار حکیم نے بتایا کہ ’شکاریوں کے تحفظات قابلِ غور ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو ان سے مذاکرات کرنے چاہییں۔ ڈپٹی کمشنر اور ہنٹرز ایسوسی ایشن کے درمیان بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘
آبی پرندوں کے لیے تالاب کیوں ضروری ہیں؟
چترال سمیت پہاڑی علاقوں میں آبی پرندوں کے شکار کے لیے پانی کے قریب مصنوعی تالاب قائم کیے جاتے ہیں۔
چترال سے تعلق رکھنے والے شکاری نعیم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اکتوبر کے مہینے سے تالاب بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے جبکہ شکار کا سیزن دسمبر کے آخری ایام سے شروع ہو جاتا ہے۔‘

نعیم خان کا کہنا تھا کہ آبی پرندے پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے دریاؤں کا رُخ نہیں کرتے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’پرندے پانی کے لیے تالاب کا رخ کرتے ہیں۔ تالاب میں مصنوعی بطخیں رکھی جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر پرندے تالاب میں اتر جاتے ہیں۔ شکاری بنکر میں پہلے سے پرندوں کے منتظر ہوتے ہیں جو ان کے تالاب میں جاتے ہی ان کا آسانی سے شکار کر لیتے ہیں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’آبی پرندے پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے دریاؤں کا رُخ نہیں کرتے بلکہ ٹھہرے ہوئے پانی کے لیے زمین پر اترتے ہیں۔ شکاری اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرندوں کا شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘
نعیم خان کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے پانچ ہزار روپے میں شکار کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ 
چترال کے ایک اور شکاری خان سعید کے مطابق شکار پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر تالاب نہ ہونے کی وجہ سے شکار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’آبی پرندوں کے لائسنس کے علاوہ اسلحہ کے لیے الگ لائسنس حاصل کیا جاتا ہے۔ اکتوبر سے اپریل تک شکار کی اجازت رہتی ہے۔ پورے ہفتے میں صرف دو دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو پرندوں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے۔‘
خان سعید کا کہنا تھا کہ ’پرمٹ کے بغیر شکار کرنے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔‘

جنوبی اضلاع کے کچھ مقامات پر آبی پرندوں کے شکار پر پابندی عائد کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

چترال میں کون سے آبی پرندے ہجرت کر کے آتے ہیں؟ 
محکمہ جنگلی حیات چترال کے مطابق زیادہ تر آبی پرندے دوسرے سرد علاقوں سے ہجرت کرکے چترال آتے ہیں۔ ان میں مرغابیوں کی مختلف اقسام بھی شامل ہیں جن میں گڈوال ، بھورا بطخ اور مالارڈ وغیرہ شامل ہیں۔
ان میں بیشتر آبی پرندے روس اور سائبیریا سے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں جو شکاریوں کے پسندیدہ شکار ہوتے ہیں، محکمہ جنگلی حیات کے مطابق صوبے کے جنوبی اضلاع کے کچھ مقامات پر آبی پرندوں کے شکار پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ماحولیات کے ماہرین کے مطابق ریور بیڈ یعنی دریا کے کناروں میں کھدائی اور تعمیرات سے پانی کا قدرتی بہاؤ متاثر ہوتا ہے جس کے باعث پانی اپنا رُخ بدل لیتا ہے۔ 

 

شیئر: