Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیویارک کے میئر کی دوڑ میں ظہران ممدانی کے اُبھرنے سے مسلمانوں کی مخالفت میں اضافہ

ظہران ممدانی کو ڈٰیموکریٹ پارٹی نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
نیو یارک سٹی کے میئر کی دوڑ میں تیزی سے ابھرنے والے ظہران ممدانی ایک قومی علامت بنا دیے گئے ہیں جن پر ایک طرف بہت سے مسلمان امریکی فخر کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ دائیں بازو کے امریکی شہریوں کے لیے اپنی سیاسی ناکامی کا استعارہ ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر اُن کی نامزدگی نے مسلمانوں کی مخالف آوازوں کو اُن کی الیکشن مہم کے دوران تیز ہوتے دیکھا ہے۔ اگر وہ نومبر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو شہر کے پہلے مسلمان میئر ہوں گے۔
ریپبلکن پارٹی کے ٹینیسی سے نمائندے اینڈی اوگلس نے اُن کے نام اور عقیدے کو نشانہ بناتے ہوئے ظہران ممدانی کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنوبی کیرولائنا کی ری پبلکن نمائندہ نینسی میس نے نائن الیون کا حوالہ دیتے ہوئے ممدانی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس میں اُن کو شلوار کُرتے میں ملبوس دکھایا گیا ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی ایکٹیوسٹ لورا لومر نے بغیر ثبوت کے دعویٰ کیا کہ ’نیو یارک میں ایک اور نائن الیون وقوع پذیر ہونے والا ہے۔‘
ظہران ممدانی کی میئر کے لیے عہدے کے لیے الیکشن مہم امریکہ اور خاص طور پر نیو یارک شہر کے لیے ایک اہم واقعہ ہے کیونکہ نائن الیون کے حملوں کی تباہی اور اس کے بعد اسلامو فوبیا میں اضافے نے مسلمانوں کی مشکلات بڑھائیں۔
کرسٹوفر نیوپورٹ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات یوسف چوہود نے اس حوالے سے کہا کہ ’وہ واقعی بہت زیادہ علامتوں کا حامل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ مہم مسلم مخالف امتیازی سلوک کی یاددہانی کراتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان امریکیوں کی جانب سے ’اس معاشرے کو آگے بڑھنے کی قیادت کرنے کے لیے‘ اپنے حق پر بھی زور دیا جاتا ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں کے سیاستدانوں نے ممدانی کی ترقی پسند سیاست اور اسرائیل پر تنقید کو نشانہ بنایا ہے۔ قدامت پسندوں نے اُن کے خلاف مذہبی حملوں اور تارکین وطن مخالف جذبات کا استعمال کیا ہے۔

مخالفین ظہرانی ممدانی کے نام اور عقیدے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ظہران ممدانی کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا اور ان کی امریکی شہریت پر جھوٹا سوال اٹھایا۔ ٹرمپ اس سے قبل سابق صدر باراک اوباما کو بھی اسی طرح نشانہ بناتے رہتے تھے۔
قومی قدامت پسندی کانفرنس میں متعدد مقررین نے ممدانی کے نام اور مذہب کو اُن پر حملے کے لیے استعمال کیا۔ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر سٹیو بینن نے ظہران ممدانی جیسے ڈیموکریٹک سوشلسٹ کو ’مارکسسٹ اور جہادی‘ قرار دیا۔
یہ بیان بازی بہت سے مسلمان امریکیوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ نفرت کا نشانہ بننے والی شخصیات میں امانی الخطاحبہ بھی شامل ہیں جنہیں سنہ 2020 میں نیو جرسی میں کانگریس کے لیے انتخاب لڑنے والی پہلی مسلمان خاتون کے طور پر گالی گلوچ اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ای میل کے ذریعے بتایا کہ ’ہم ایک دوراہے پر ہیں۔ ایک طرف تو مسلمان سیاسی میدانوں میں سامنے آ رہے ہیں، بے مثال اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں، اور دوسری طرف ہمیں غیرانسانی شکل دینا کبھی اتنا عام اور کھل کر نہیں کیا گیا۔‘

ظہران ممدانی نے صدر ٹرمپ کے مداح چارلی کرک کے قتل کی مذمت کی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سیاسی تشدد کا خطرہ

گزشتہ ماہ قتل کیے جانے سے قبل قدامت پسند کارکن چارلی کرک نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’’امریکہ کے سب سے بڑے شہر پر 24 سال قبل بنیاد پرست اسلام نے حملہ کیا تھا اور اب اسی طرح کی خطرناک قوت سٹی ہال پر قبضہ کرنے کے لیے تیار ہے۔‘  
چارلی کرک نے اپنے شو میں ممدانی کو ’محمدن‘ پکارا جو مسلمانوں کے لیے ایک قدیم اصطلاح ہے، اور نیویارک جیسے ’اینگلو سینٹرز‘ کے بارے میں خبردار کیا کہ وہ ’مسلمانوں کی حکمرانی‘ میں چلے جائیں گے۔
ظہران ممدانی نے چارلی کرک کے قتل کی مذمت کی اور امریکہ میں سیاسی تشدد کے طاعون کے پھیلنے کو خطرہ قرار دیا۔

 

شیئر: