Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتوار تک معاہدہ قبول کریں ورنہ ایسی تباہی آئے گی جو پہلے نہیں دیکھی گئی: صدر ٹرمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز کہا کہ حماس کو اتوار کی شام تک مجوزہ امن معاہدے پر رضامند ہونا ہوگا، ورنہ جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہوگا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ٹرمپ بظاہر جنگ ختم کرنے اور کئی یرغمالیوں کو واپس لانے کے وعدے پورے کرنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کو اسرائیل نے قبول کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا خیرمقدم کیا گیا، مگر کلیدی ثالث مصر اور قطر، اور کم از کم ایک حماس عہدے دار نے کہا ہے کہ کچھ نکات مزید مذاکرات کے متقاضی ہیں۔
ٹرمپ نے جمعہ کو سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’حماس کے ساتھ معاہدہ اتوار کی شام واشنگٹن، ڈی سی کے وقت شام چھ (6) بجے تک طے پانا چاہیے۔ ہر ملک نے اس پر دستخط کر دیے ہیں! اگر یہ آخری موقع والا معاہدہ طے نہ پایا تو حماس کے خلاف ایسی تباہی و غضب پھوٹ پڑے گا جیسا کہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایک نہ ایک طریقے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو گا۔‘
ٹرمپ کے منصوبے کے تحت جنگ ختم کی جائے گی اور یرغمالیوں کو واپس لایا جائے گا۔
اس منصوبے کے مطابق، جسے ٹرمپ نے اس ہفتے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ہمراہ پیش کیا، حماس فوری طور پر باقی 48 یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ اس کے علاوہ وہ اقتدار چھوڑ دے گی اور ہتھیار ڈال دے گی۔
بدلے میں، اسرائیل اپنی جارحیت روک دے گا اور زیادہ تر علاقے سے پیچھے ہٹ جائے گا، سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا اور انسانی امداد اور بعد ازاں تعمیر نو کی اجازت دے گا۔ غزہ کی آبادی کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی مؤخر کی جائے گی۔
معاہدے کے مطابق تقریباً دو ملین فلسطینیوں کے اس علاقے کو بین الاقوامی انتظامیہ کے کنٹرول میں رکھا جائے گا، جس کی نگرانی خود ٹرمپ اور برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کریں گے۔ یہ منصوبہ مستقبل میں اسرائیلی زیرِ انتظام مغربی کنارے کے ساتھ فلسطینی ریاست کے الحاق کا کوئی راستہ نہیں دیتا۔

حماس نے سخت موقف اختیار کیا ہے کہ وہ باقی یرغمالیوں کو اس شرط پر ہی آزاد کرے گی کہ ایک مستقل جنگ بندی ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک حماس عہدے دار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ منصوبے کے کچھ اجزاء ناقابلِ قبول ہیں اور انہیں ترمیم کی ضرورت ہے، مگر تفصیل نہیں بتائی۔ فلسطینی طویل عرصے سے جنگ کے خاتمے کے خواہشمند ہیں، مگر بہت سے لوگ اس اور ماضی کے امریکی منصوبوں کو اسرائیل کی جانب داری سمجھتے ہیں۔
جب سے مارچ میں پچھلی جنگ بندی ختم ہوئی ہے، اسرائیل نے حماس پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے غزہ کو دو ماہ سے زائد عرصے تک خوراک، ادویات اور دیگر اشیاء سے محروم کیا، علاقوں پر قبضہ کیا، عمارتیں زمین بوس کر دیں اور ان سے لوگوں کو نکال دیا۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ اسرائیل کی بڑی کارروائی شروع کرنے سے قبل غزہ شہر قحط کی زد میں آ چکا تھا۔ اندازہ ہے کہ پچھلے ہفتوں میں تقریباً چار لاکھ افراد شہر چھوڑ کر گئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان اولگا چریوکو نے جمعرات کو کہا کہ انہوں نے شفا ہسپتال کی پارکنگ لاٹ میں کئی بے گھر خاندان دیکھے۔
’وہ جنوب کی جانب نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے بس میں نہیں ہے۔ ایک خاندان میں تین بچے تھے اور عورت چوتھے بچے کی ماں تھی۔ وہاں معمر افراد اور معذور افراد بھی موجود تھے جن کی حالت نازک تھی۔‘
ٹرمپ نے لکھا کہ ’حماس کے بیشتر جنگجو محاصرے میں ہیں اور فوجی طور پر پھنسے ہوئے ہیں، بس میرے حکم ’چل پڑو‘ کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کی زندگی  خطرے میں پڑ جائے۔ باقی افراد کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں اور کہاں ہیں، اور آپ کا سراغ لگایا جائے گا، اور آپ کو مارا جائے گا۔‘
حماس نے سخت موقف اختیار کیا ہے کہ وہ باقی یرغمالیوں کو اس شرط پر ہی آزاد کرے گی کہ ایک مستقل جنگ بندی ہو اور اسرائیل پیچھے ہٹ جائے۔ نیتن یاہو نے ان شرائط کو مسترد کیا اور کہا کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینا چاہیے۔

 

شیئر: