Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راولپنڈی: گردہ نکالنے کا دل دہلا دینے والا واقعہ، دو سال بعد مقدمہ درج

راولپنڈی کے علاقے چکلالہ میں دو سال قبل پیش آنے والا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ اب منظرِ عام پر آیا ہے، جب ایک مزدور زین علی نے صحت یابی کے بعد اپنا گردہ نکالنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے مقدمہ درج کرا دیا ہے۔
تھانہ چکلالہ میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، زین علی کو روزگار کا جھانسہ دے کر اپنے ساتھ لے جایا گیا، جہاں اس کی لاعلمی میں اس کا گردہ نکال لیا گیا۔ پولیس کے مطابق متاثرہ شخص کے بیان پر مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں جمشید عرف ببلی، عرفان، امین، ایک نامعلوم مرد ڈاکٹر، ایک لیڈی ڈاکٹر اور طبی عملے کو نامزد کیا گیا ہے۔
زین علی نے بیان دیا کہ ملزمان نے اسے نشہ آور مشروب پلایا، جس کے بعد وہ پانچ دن تک بے ہوش رہا۔ جب ہوش آیا تو وہ امین کے گھر میں تھا، جس نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ مزدوری کے دوران گرنے سے پیٹ میں چوٹ آئی ہے اور علاج جاری ہے۔ چند دن بعد ان کے والدین کو اطلاع دی گئی، جنہوں نے اُسے لاہور لے جا کر ڈاکٹروں سے معائنہ کرایا، جہاں انکشاف ہوا کہ اس کا بایاں گردہ نکال لیا گیا ہے۔
طویل علاج اور صحت یابی کے بعد زین علی نے قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ عدالتی حکم پر بینظیر بھٹو ہسپتال میں دوبارہ طبی معائنہ کرایا گیا، جس میں گردہ نکالے جانے کی تصدیق ہوئی۔

انسانی اعضا کی خرید و فروخت: قانون موجود، عمل درآمد کمزور

پاکستان میں انسانی اعضا کی خرید و فروخت 2010 کے قانون کے تحت سنگین جرم ہے، جس کی سزا دس سال تک قید اور بھاری جرمانہ ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق، اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت اور لاعلمی جیسے عوامل کمزور طبقات کو ایسے مجرمانہ نیٹ ورکس کا آسان ہدف بنا دیتے ہیں۔
گزشتہ برس پنجاب پولیس نے انسانی اعضا کے ایک بڑے ریکٹ کا انکشاف کیا تھا، جس میں بتایا گیا کہ ایک نیٹ ورک نے 328 گردے غیر قانونی طور پر نکالے اور انہیں امیروں اور بیرونِ ملک مریضوں کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
متاثرہ افراد سے چند لاکھ روپے کے عوض گردے خریدے گئے، جبکہ یہی گردے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے میں فروخت کیے گئے۔
اس دوران ایک 14 سالہ لڑکے کا گردہ بھی زبردستی نکالا گیا، جسے بعد ازاں پولیس نے بازیاب کرایا۔

اعضا کی کمی، ہر روز 10 سے 15 اموات

رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں ہر روز 10 سے 15 افراد اعضا کی کمی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کیونکہ انہیں بروقت ٹرانسپلانٹ میسر نہیں آتا۔
ماہرین کے مطابق، پاکستان کو ہر سال تقریباً 50 ہزار اعضا کے ٹرانسپلانٹس کی ضرورت ہے، جن میں گردے کے مریضوں کی تعداد ہی 15 ہزار کے قریب ہے۔ مگر ڈونر سسٹم کے فقدان اور غیر قانونی کاروبار کے فروغ نے یہ خلا مجرموں کے لیے ایک منافع بخش موقع میں بدل دیا ہے۔
تحقیقات میں یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ کچھ ملزمان بار بار گرفتار ہونے کے باوجود عدالت سے ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، جس سے متاثرین کا عدالتی نظام پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔
اکثر متاثرین غربت، دھمکیوں یا بدنامی کے خوف کے باعث شکایت درج نہیں کراتے، جس کا فائدہ اٹھا کر مجرم مزید طاقتور ہو جاتے ہیں۔

شیئر: