Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیل سے ’سلطنت‘ چلانے والے گینگسٹر ’لارنس بشنوئی‘ نے کینیڈا میں کیسے دہشت پھیلا دی؟

انڈیا کی ایک جدید سکیورٹی والی جیل میں قید لارنس بشنوئی اپنے سیل سے مبینہ طور پر ایک سلطنت چلا رہے ہیں۔
امریکی نیوز چینل سی این این کی ویب سائٹ کے مطابق ’جیل میں اُن کا کمرہ کنکریٹ کا بنا ہوا ہے جہاں قید میں اُن کا سمارٹ فون بھی اُن کے پاس ہے۔‘
32 سال کے بادشاہ پر بالی وڈ کے ایک سُپرسٹار کو دھمکی دینے، ایک معروف پاپ گلوکار کو قتل کرنے، اور پوری دنیا میں سیاسی قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔
انڈیا کے اعلٰی تفتیشی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق ’لارنس بشنوئی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے 700 سے زائد ارکان کے ایک خوفناک نیٹ ورک کی کمان کر رہے ہیں۔‘
انہیں مجرمانہ سازش، بھتہ خوری، قتل اور دہشت گردی کی سرگرمیوں جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔
گذشتہ ماہ انہیں کینیڈا میں اُس وقت ایک دہشت گرد کی حیثیت سے نامزد کیا گیا جب کینیڈین حکومت نے انڈیا پر الزام لگایا کہ وہ اُس کی سرزمین پر سکھوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کے لیے اِس (بشنوئی) گینگ کو استعمال کر رہا ہے۔‘
کینیڈا کے پبلک سیفٹی کے وزیر گیری آنند سنگاری نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ’بشنوئی گینگ کی طرف سے دہشت گردی، تشدد اور دھمکیوں کے لیے مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
دوسری جانب لارنش بشنوئی اپنے خلاف عائد بیشتر الزامات سے انکار کرتے ہیں اور اُن کے وکیل نے سی این این کو بتایا کہ ’وہ کینیڈا کی جانب سے اُن کے موکل پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیں گے۔‘
لارنس بشنوئی کون ہیں؟
لارنس بشنوئی کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے، وہ 12 فروری 1993 کو ہریانہ کے ایک پولیس کانسٹیبل کے گھر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کانوینٹ سکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔
سنہ 2009 میں کالج میں لارنس بشنوئی طلبہ سیاست میں بھی سرگرم رہے جس کے بعد اُن کی تخریبی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی۔
لارنس بشنوئی پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں اور انہوں نے وکالت کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی تھی، تاہم اِس کے بعد وہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث رہنے لگے۔
انڈین پولیس کے مطابق ’لارنس بشنوئی کے گینگ میں پیشہ وارانہ قاتل بھی شامل ہیں اور یہ گینگ انڈیا کے متعدد علاقوں بشمول پنجاب، ہریانہ، راجستھان، دہلی اور ہماچل پردیش سے کارروائیاں کرتا ہے۔‘
’مُوسے والا کو کس نے مارا؟‘ کتاب کے مصنف اور اور صحافی جُپندر سنگھ نے بتایا کہ ’لارنش بشنوئی کا تعلق ایک اچھے خاندان سے ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’بشنوئی گینگ پر جو بڑے بڑے الزامات ہیں اُن میں سے ایک پنجابی گلوکار سدھو مُوسے والا کے قتل کا الزام بھی ہے۔‘
انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ ‘بشنوئی گینگ ملک کے متعدد علاقوں میں شراب خانوں، پنجابی گلوکاروں اور بااثر افراد سے بھتہ وصول کرنے میں بھی ملوث رہا ہے۔‘
گذشتہ برس اکتوبر میں ہی انڈین پولیس نے بتایا کہ ’لارنس بشنوئی گینگ نے انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر بابا صدیقی کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔‘
این ڈی ٹی وی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ’بابا صدیقی کے قتل میں تین شُوٹر ملوث تھے جن میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘ 
’ملزمان میں ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 23 سال کے گرو میل بلجیت سنگھ، اُترپردیش کے 19 برس کے دھرم راج کشیپ اور یو پی سے تعلق رکھنے والے شیوکمار شامل تھے۔‘
پولیس کے مطابق ’مشتبہ افراد کو 50 ہزار روپے پیشگی ادا کیے گئے تھے اور قتل سے چند دن پہلے ہی انہیں اسلحہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔‘
یاد رہے کہ انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر اور سلمان خان اور شاہ رخ خان سمیت بالی وُڈ کے بے شمار ستاروں کے دوست سمجھے جانے والے بابا صدیقی کو 12 اکتوبر 2024 کو ممبئی میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔ 

 

 

شیئر: