جزیرہ نما عرب کی شناخت اور تاریخ کی علامت، کجھور کے درخت کی ثقافتی اور تخلیقی میراث کے بارے میں مزید حقائق جاننے کے لیے ظہران کے کنگ عبدالعزیز سینٹر میں ایک نمائش کا افتتاح ہوا ہے جسے ’الباسقات، دا پام ٹری‘ کا نام دیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق کنگہ عبدالعزیز سینٹر کو اثراء بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نمائش اگلے برس مارچ کے مہینے تک جاری رہے گی۔
مزید پڑھیں
-
چین کی بین الاقوامی نمائش میں سعودی کھجوروں کا سٹالNode ID: 797661
-
سعودی کھجوروں کی برآمدت میں اضافہ، بڑے خریدار کون ہیں؟Node ID: 878076
اس نمائش کو سامر یمانی اور ورزان المصری نے بڑے محتاط انداز میں ترتیب دیا ہے۔ اس میں سعودی عرب اور مملکت کے باہر سے 25 فنکاروں کے 15 فن پارے رکھے گئے ہیں۔
منتظمین کہتے ہیں کہ نمائش دیکھنے کے لیے آنے والوں کو ان طریقوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح قدیم میسوپوٹیمیا اور مصر سے لے کر عہدِ جدید کے عرب تک، کھجور نے غذا، پناہ، دوا اور ہنر میں برِاعظموں اور تہذیبوں میں انسانی زندگی طرح تشکیل کی ہے۔
سعودی عرب میں کھجور کے 33 ملین درخت ہیں جو دنیا میں کھجور کے درختوں کی کل آبادی کا 27 فیصد ہے۔
یونیسکو نے تسلیم کیا ہے کہ صرف الاحسا میں ہی کھجور کے ڈھائی لاکھ درخت ہیں جس کے باعث یہ جگہ دنیا میں کھجور کے درختوں کا سب سے بڑا نخلستان ہے۔

فرح ابوشلیح جو اثراء میوزیم کی سربراہ ہیں کہتی ہیں کہ ’الباسقات، تخلیق کرنے والوں، خاندانوں اور سیکھنے کے خواہشمند نوجوانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ہماری جڑوں میں پیوستہ اس عمل میں حصہ لیں جس ہم سب نے مل کر تعمیر کرنا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایسا کرنے، دیکھ بھال کے ذریعے اور تخلیق اور کمیونٹی کی شرکت کے تسلسل سے کجھور کے درختوں کے ذریعے ’اُگنے‘ والی دانائی ایک سے دوسرے کو، نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہے گی۔
اس نمائش کو مختلف موضوعاتی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا عنوان، نخلستان، جڑیں، تنا، پتے، کھجور اور لیب رکھا گیا ہے جو فنکارانہ تلاش کو عملی ورکشاپس اورعلمی معلومات کے لیے فلموں سے جوڑ دیتا ہے۔

فلمساز محمود قعبور کی مختصر دستاویزی فلم ’سعفۃ‘ بھی نمائش کا حصہ ہے جو الاحسا کے نخلستان میں کھجور کے درختوں کو استعمال کرکے بُنائی کرنے والوں کے بارے میں ہے۔
نمائش میں خصوصی طور پر رکھے گئے فن پاروں میں سعودی فنکارہ فاطمہ النمیر کا القار شامل ہے جو بُنا ہوا ایک غالیچہ ہےجسے مقامی خواتین کاریگروں کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ جس میں کجھور کے درخت کے فائبرز استعمال ہوئے ہیں۔
اسی طرح تیونس کے فنکار محمد امینی حمودہ کی مجسمے کی تنصیب جسے نخلستان کے پانی سے تیار کیا گیا ہے اور میکسیکو کے ڈیزائنر ڈینیئل ویلرو کی ’لا کابرا چیئر‘، دیہی روایت کو جدید ڈیزائن کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔

اس کے علاوہ دیگر نمایاں فیچرز میں بحرین کے فنکار عبداللہ بوھیجی اور نُور علوان کی ’ٹُوب ٹُوب یا بحر‘ اور سعودی فنکار عبید الصافی کی ’پام ان ایٹرنل ایمبریس‘ جسے سنہ 2023 میں اثراء کا آرٹ پرائز بھی دیا گیا تھا، شامل ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی اور اس سے سنبھل کر نکلنے کے اظہار کا بیان ہے۔
نمائش میں مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی فنکاروں جن میں مملکت کی اپنی باشائر ھوساوی کی تخلیقات ’دا چین دیٹ ریبلڈ اگینسٹ ارتھ‘ اور ’ہولی تھرسٹ 4‘ بھی نمائش میں ہیں جو یاد داشت، ملکیت اور کاریگری اور ہنرمندی کے موضوعات سے متعلق ہیں۔