حماس کے مذاکرات کاروں کی کمیٹی کے ایک قریبی ذریعے نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد اُن کا عسکری گروپ علاقے کا انتظام نہیں سنبھالے گا۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق اتوار کو یہ بات ایسے وقت کی گئی جب عالمی رہنما غزہ میں امن کے لیے اجلاس میں شرکت کرنے مصر آ رہے ہیں۔
حماس کے قریبی ذریعے کا یہ تبصرہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔ دونوں فریق جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
صدر ٹرمپ اور السیسی کی صدارت میں غزہ امن سمٹ پیر کو مصر میں ہوگاNode ID: 895764
ان نکات میں حماس کو اسلحہ رکھنے اور گروپ کو جنگ کے بعد غزہ کے انتظامی معاملات چلانے میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حماس کے قریبی ذریعے نے حساس معاملات پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حماس کے لیے غزہ کی پٹی پر حکمرانی اب کوئی ایشو نہیں رہا۔ حماس عبوری مرحلے میں شامل نہیں ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی کا کنٹرول چھوڑ دیا ہے، لیکن یہ فلسطینی معاشرے کا ایک بنیادی حصہ رہے گی۔‘
خطے میں دیگر بڑی عسکری تنظیموں کے برعکس حماس کی قیادت ماضی میں غزہ کی مستقبل کی انتظامیہ سمیت کئی اہم مسائل پر منقسم رہی ہے۔
لیکن جہاں سرفہرست ارکان میں کوئی تقسیم نظر نہیں آتی وہ اس کے غیرمسلح ہونے کے سوال پر ہے، جسے گروپ نے طویل عرصے سے ایک ریڈ لائن قرار دیا ہوا ہے۔
ذریعے نے بتایا کہ ’حماس ایک طویل مدتی جنگ بندی سے اتفاق کرتی ہے، اور اس کے ہتھیار اس مدت کے دوران استعمال نہیں کیے جائیں گے، سوائے اُس وقت کے جب غزہ پر اسرائیل حملہ کرے گا۔‘

حماس کے ایک اور اہلکار جس نے حساس موضوعات پر بات کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی تھی، نے قبل ازیں اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حماس کے غیرمسلح ہونے کا ’کوئی سوال ہی نہیں۔‘
صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کی پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو ’دہشت گردی سے پاک علاقہ بنایا جائے جو اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔‘
صدر ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ کی مستقبل کی انتظامیہ میں حماس کا کوئی کردار نہیں جبکہ تنظیم کو غیرمسلح کرنے اور آئندہ ہتھیار نہ رکھنے کا بھی کہا گیا ہے۔