’ولور‘ کی رقم، کے لیے رحیم نے برسوں محنت کی اور شادی کے دن فائرنگ سے مارا گیا
’ولور‘ کی رقم، کے لیے رحیم نے برسوں محنت کی اور شادی کے دن فائرنگ سے مارا گیا
جمعرات 16 اکتوبر 2025 5:31
زین الدین احمد، -اردو نیوز، کوئٹہ
رحیم اللہ نے ہوٹل میں مزدوری سے 10 لاکھ روپے جمع کیے تھے: فوٹو فیس بک پیج
بلوچستان کے ایک دور دراز گاؤں کا 28 سالہ نوجوان برسوں سے اس دن کا انتظار کر رہا تھا۔غربت اور محرومیوں سے بھری زندگی میں اس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرے۔
جب وہ بارات لے کر دلہن کے گھر پہنچا تو سب خوش تھے۔ نکاح ہوا، دعائیں ہوئیں، سب نے مسکراتے چہروں کے ساتھ نئے جوڑے کو رخصت کیا مگر چند گھنٹے بعد وہی خوشی خون میں رنگ گئی۔
بارات واپس گاؤں پہنچی تو دوستوں نے خوشی کے اظہار کے طور پر ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔
اسی لمحے ایک دوست نے پستول خالی سمجھ کر دوسرے دوست کو دیا جس کے ہاتھ سے اچانک گولی چل گئی۔
گولی سیدھی دلہے کے جسم میں لگی اور اس کے ارمانوں، خوابوں اور نئی زندگی کا اختتام کر گئی۔ اس کی نئی نویلی دلہن عروسی لباس میں ہی بیوہ بن گئی۔
یہ دکھ بھری کہانی بلوچستان کے ضلع پشین کی تحصیل برشور کے گاؤں کلی وچہ شیخان کے رہائشی رحیم اللہ کاکڑ کی ہے۔
رحیم اللہ کی والدہ جو پہلے ہی بیمار تھیں، بیٹے کی موت کے صدمے کی وجہ سے سنبھل نہیں پارہیں، ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی ہیں۔
رحیم اللہ کے بڑے بھائی محمد عالم نے بتایا کہ رحیم بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور ماں کے سب سے قریب تھا۔ والد رحیم کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
ان کے مطابق بوڑھی ماں جب بیوہ بہو کی مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھتی ہیں تو اس کے لیے صدمہ جھیلنا مشکل ہوتا ہے۔
رحیم اللہ کے بچپن کے دوست خان محمد کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعے کے دن (10 اکتوبر کو) پیش آیا۔ شادی کی خوشی میں لوگ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک پستول سے چھیڑ چھاڑ کے دوران اچانک چل گیا۔
ان کے مطابق گولی چلنے کی آواز تو آئی مگر کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ لگی کہاں۔ اسی دوران رحیم اللہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ جب اس نے اپنے نئے لباس کے اوپر پہنی ہوئی واسکٹ ہٹائی تو دیکھا کہ اس سے خون بہہ رہا ہے۔
خان محمد کے مطابق گولی رحیم اللہ کی پیٹھ میں لگی اور جگر کو چھیرتی ہوئی سینے سے نکلی اور وہ وہیں زمین پر گر گئے۔ اسی گولی سے ایک اور نوجوان بھی معمولی زخمی ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ رحیم اللہ کو فوری طور پر گاڑی میں ڈال کر ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال پشین لے جایا گیا۔ تقریباً 60 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب وہ ہسپتال پہنچے تو وہاں کے عملے نے کہا کہ یہاں علاج ممکن نہیں۔ پھر اسے کوئٹہ روانہ کیا گیا مگر راستے میں گاڑی خراب ہو گئی۔ اس وقت تک بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔ ایمبولینس کا بندوبست کرتے اور مزید 50 کلومیٹر دور کوئٹہ پہنچاتے پہنچاتے بہت دیر ہو چکی تھی۔
خان محمد کے مطابق ’رحیم کا خون رک نہیں رہا تھا۔ اسے 16 بوتلیں خون لگایا گیا اور اس کا آپریشن بھی کیا گیا۔ آپریشن کے بعد وہ کومے میں چلا گیا پھر اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ دو دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد آخرکار وہ اتوار کی صبح دم توڑ گیا۔‘
گاؤں کے مکین کہتے ہیں کہ جب رحیم اللہ کا جنازہ لایا گیا تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ دو دن پہلے جو لوگ اس کی شادی کی خوشیاں منا رہے تھے اب اس کے جنازے کو کندھا دے رہے تھے۔ شادی کے لیے جو سامان لایا گیا وہی فاتحہ خوانی میں استعمال ہوا۔
رحیم کی شادی ولور‘کی رسم کی وجہ سے اس کی شادی پانچ سال سے زائد تاخیر کا شکار ہوئی: فوٹو فیس بک پیج
رحیم اللہ کی والدہ جو پہلے ہی بیمار تھیں، بیٹے کی موت کے صدمے کی وجہ سے سنبھل نہیں پا رہیں۔ ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی ہیں۔ رحیم گھر کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور ماں کے سب سے قریب تھا۔ والد رحیم کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
خان محمد کاکڑ بتاتے ہیں کہ میں اور رحیم بچپن کے دوست تھے۔ مڈل تک اکٹھے پڑھے۔ غربت نے اسے تعلیم چھوڑنے پر مجبور کیا اور وہ لڑکپن میں ہی کوئٹہ چلا گیا۔ وہاں ہوٹل میں ویٹر کا کام شروع کیا اور پھر بھائیوں کے ساتھ مل کر کوئٹہ میں عدالت روڈ پر ایک چھوٹا سا چائے کا ڈھابہ کھولا۔
’رحیم اللہ 12/13 برسوں سے یہی کام کررہا تھا۔وہ بہت محنتی، ہر دلعزیز اور مددگار شخص تھا۔ وہ گاؤں کے نوجوانوں کے کام آتا، ایک سیاسی جماعت کے مقامی یونٹ کا انچارج بھی تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہتا۔‘
اکثر رحیم اللہ کے ڈھابے پر چائے پینے کے لیے آنے والے عبدالخالق دمڑ بتاتے ہیں کہ ’رحیم اللہ بہت خوش اخلاق تھا۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ ہوٹل پر آنے والے لوگ صرف چائے نہیں پیتے تھے، اس کے ساتھ گپ شپ بھی کرتے تھے۔ وہ گاہکوں کو دوست بنا لیتا تھا میں بھی اسی طرح اس کا دوست بنا۔
ان کا کہنا ہےکہ رحیم اللہ نے مجھے شادی میں شرکت کی دعوت بھی دی مگر اس کا گاؤں بہت دور تھا میں نے اسے مذاق میں کہا کہ ایک روش (شادیوں میں کھلائی جانے والی روایتی پشتون ڈش) کے لیے مجھے15/20 ہزار روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔
عبدالخالق کے مطابق میں اس کی شادی میں نہیں جا سکا مگرعیادت کرنے ہسپتال گیا۔ جب اگلے دن اس کے مرنے کی خبر سنی تو یقین نہیں آیا۔ اپنی ہی شادی میں فائرنگ سے جان دینا کتنا المناک ہے یہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت ملک کے کئی علاقوں میں شادی اور خوشی کے موقع پر پر ہوائی فائرنگ عام ہے۔ قانوناً جرم ہونے کے باوجود ہر سال درجنوں افراد اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اس واقعہ کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ ایک صارف عطا کاکڑ نے لکھا کہ’ہوائی فائرنگ چند لمحوں کی تفریح کے بدلے کسی کا پیارا ہمیشہ کے لیے چھین لیتی ہے۔ آئیے اپنی خوشی کو دوسروں کے غم کا سبب نہ بنائیں۔‘
ایک اور صارف محب خان نے کہاکہ ’رحیم کو نہیں جانتا تھا مگر دل بھر آیا۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے ادھورے ارمان لے کر گیا۔‘
’ولور‘کی رسم کی وجہ سے اس کی شادی پانچ سال سے زائد تاخیر کا شکار ہوئی
رحیم اللہ سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرے لیکن ولور کی رسم اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ تھی: فائل فوٹو فری پکس
رحیم اللہ کے ایک اور دوست عبدالعلی کاکڑ کا کہنا ہے کہ’ رحیم اللہ کی کہانی میں ایک اور تلخ حقیقت بھی شامل ہے۔’ولور‘کی رسم کی وجہ سے اس کی شادی پانچ سال سے زائد تاخیر کا شکار ہوئی۔‘
پشتون معاشرے میں رائج ولور کی رسم دراصل لڑکی کے خاندان کو لڑکے کی جانب سے ادا کی جانے والی بھاری رقم ہوتی ہے۔
بعض لوگ اسے ’حق مہر‘کہتے ہیں مگر زیادہ تر خاندانوں میں یہ رقم لڑکی کی ملکیت نہیں بنتی بلکہ والدین یا بھائیوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔
شادی کے اخراجات کے علاوہ ولور کی اس بھاری رقم کی ادائیگی کے لیے لڑکوں کو اضافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ رقم کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے شادیاں کئی کئی سال التوا کا شکار ہوجاتی ہے۔
عبدالعلی کاکڑ کے مطابق ’رحیم اللہ نے ہوٹل کی مزدوری سے 10 لاکھ روپے ولور کی رقم جمع کی۔ اس نے برسوں پسینہ بہایا تب جا کر اس کی شادی ممکن ہوئی مگر اپنی نئی زندگی کے ارمان پورے کرنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔‘
کوئٹہ کے صحافی عبدالغنی کاکڑ نے تین سال قبل ولور کی رسم پر ایک رپورٹ بنائی۔ جس میں رحیم اللہ کا انٹرویو شامل تھا۔
رحیم اللہ نے اس انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’ہوٹل کی مزدوری سے مہینے کے آخر میں تین چار ہزار سے زیادہ نہیں بچتے۔ اتنی بچت میں ولور کی 10 لاکھ روپے کی رقم جمع بہت مشکل ہے۔‘
اسی رپورٹ میں ان کی والدہ ناز بی بی نے کہا تھا کہ ’ولور کی رسم نے ہماری خوشیاں ماند اور نیندیں خراب کر دی ہیں۔ بہو کئی سالوں سے انتظار میں بیٹھی ہے مگر ہم مجبوری کی وجہ سے اسے بیاہ کر نہیں لا سکتے۔‘
خان محمد نے بتایا کہ رحیم نے ولور کی بقایا رقم اور شادی کے اخراجات ادھار لے کر ادا کیے تھے۔
خان محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’رحیم اللہ کی موت صرف ایک گھرانے کا دکھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے سوچنے کی بات ہے۔ ہم خوشی کے موقع پر لاپرواہی اور دکھاوے میں جانوں سے کھیل جاتے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوائی فائرنگ اور ولور جیسی رسموں سے سبق نہ سیکھا تو نہ جانے کتنے اور رحیم اپنے خواب لیے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔‘