جزیرہ نما عرب کی ثقافت میں فلکنری اور فالکن کے ذریعے شکار کی روایت عہد قدیم سے چلی آ رہی ہے۔
فالکنری خاص کر مدینہ منورہ ریجن کے مستند ورثے کی ایک نمایاں شناخت ہے، اہل مدینہ نے اس مستند روایت کو نسلوں سے نہ صرف اس روایت کو برقرار رکھا بلکہ اسے اپنی ثقافتی و سماجی شناخت بھی بنا لیا۔
مزید پڑھیں
-
غیر ملکی سفیروں کو فالکنری ورثے کے تحفظ کے لیے کوششوں پر بریفنگNode ID: 698101
-
گھڑ سواری اور فالکنری کے سعودی ورثے کو یکجا کرنے کا منفرد تجربہNode ID: 825181
سعودی خبررساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق اہل عرب میں فالکنری کا فن عہد قدیم سے رائج ہے جو صحرائی زندگی سے مربوط ہے۔
بادیہ نشین عہدِ رفتہ میں شکار کے اسی طریقے پرعمل پیرا تھے بعدازاں مملکت نے اسے ایک باقاعدہ شناخت دی۔
مدینہ منورہ ریجن کی مختلف کمشنریوں میں فالکنری کے متعدد سینٹرز موجود ہیں خاص کر شمالی اور مشرقی علاقوں کے رہائشی اس فن میں مہارت رکھتے ہیں۔

اکتوبر کا مہینہ علاقے میں پرندوں کے شکار کے لیے مناسب ترین مانا جاتا ہے۔ یہ موسم معاش، افزائش نسل اور تفریح کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ایک ماہر زید الحربی کا کہنا ہے ’اس مہینے میں شکار کے شوقین جمع ہوتے ہیں اور مختلف مقامات پر اپنے پرندوں کے ساتھ شکار پر نکل جاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا’ مملکت کے مغربی ساحلی علاقے شکار کے لیے انتہائی موزوں مانے جاتے ہیں۔‘

مدینہ منورہ ریجن کے ’بازبان‘ اپنے شکاری پرندوں کی خوراک اور ان کی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔
بازوں کی دیکھ بھال کےلیے وہ قدیم و روایتی اشیا جن میں ’البرقع‘ ’السبوق‘ اور الملواح (آنکھوں کا چشمہ، پنچوں کا کور اور باز کے بیٹھنے کا سٹینڈ) کا استعمال کرتے ہیں۔
بازوں کے ذریعے شکار کے قواعد مقرر ہیں جن پرعمل ضروری ہے۔ شکار کا آغاز صبح سے کیا جاتا ہے جو رات تک جاری رہتا ہے تاہم تحفظ ماحولیاتی قوانین پرسختی سے عمل کیا جاتا ہے۔
مدینہ منورہ میں فالکنری اب محض ایک راویت نہیں رہی بلکہ یہ قومی منصوبہ اور ثقافتی شناختی علامت بن چکی ہے۔