Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کے وہ مشہور ڈنرز جن کی تاریخی حیثیت آج بھی کم نہیں ہوئی

سر سید ڈنر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈنر ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایم یو سٹیزنز)
رات کا کھانا یعنی ڈنر یا عشائیہ سب سے عام کھانا ہے۔ اگر یہ روزانہ آپ کو دستیاب ہے تو آپ شکر ادا کریں کیونکہ بہت سے لوگوں کو یہ ہر روز میسر نہیں ہوتا۔
تاہم دنیا میں چند ڈنر ایسے ہیں جو بہت ہی زیادہ مشہور ہیں اور ان کی اپنی تاریخی اہمیت و افادیت ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے فیصلے ڈنر پر کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کا اہتمام بہت خاص ہے۔
چنانچہ اردو کے معروف مزاحیہ شاعر سید اکبر حسین الہ آبادی نے اس بابت ایک شعر بھی کہا ہے:
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے، مگر آرام کے ساتھ
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم بیٹھے بٹھائے ڈنر کی بات لے کر کیوں بیٹھ گئے تو گذشتہ دنوں انڈیا کے معروف تعلیم ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سر سید ڈنر کا اہتمام تھا۔
مجھے بھی اپنے بھائی کی جانب سے اس میں شرکت کی دعوت تھی لیکن میں شریک نہ ہو سکا۔ تاہم اس کا ذکر اس قدر تھا کہ اس کے بارے میں بتائے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔

سر سید ڈنر

یہ ہر برس علی گڑھ میں بہت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور علی گڑھ کے حاضر و سابق طلبہ اس کا سال بھر ذکر کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈنر ہے جس میں تقریبا نئے ہزاریے میں ہر سال 20-25 ہزار طلبہ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ اور یہ ڈنر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کے یوم پیدائش کے 17 اکتوبر 1817 کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔
علی گڑھ والوں سے میں نے بات کی کہ آخر اس میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ دنیا بھر سے لوگ اس ڈنر میں شرکت کے لیے چلے آتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا۔ بریانی ہوتی ہے، سلاد ہوتا ہے، قورمہ اور خمیری تندوری روٹی ہوتی ہے اور میٹھے میں کچھ ہوتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا!
کہا جاتا ہے کہ پہلے اس کا اہمتام سر سید ہال کے میدان اور یونیورسٹی کے بڑے گراؤنڈ میں ہوتا تھا اور ایک ساتھ ہزاروں طلبہ کھاتے تھے لیکن اب ایک ساتھ ایک جگہ اتنے لوگوں کی گنجائش نہیں ہوتی تو حاضر طلبہ کا ڈنر اپنے اپنے ہالز میں ایک ساتھ ہوتا ہے جبکہ سابق طلبہ یونیورسٹی گراؤنڈ اور ایس ایس ہال کے گراؤنڈ میں ایک ساتھ ہوتے ہیں اور ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہوتی ہے۔

سر سید ڈنر ہر برس علی گڑھ میں بہت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوسرکلز ڈاٹ نیٹ)

دن بھر سر سید کے حوالے سے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں اور حصوں میں پروگرامز ہوتے ہیں اور شام آٹھ بجے یا عشا کی نماز کے بعد سر سید ڈنر کا اہتمام ہوتا ہے۔ اور آپ زیادہ تر لوگوں کو وہاں کے روایتی لباس علی گڑھ پاجامہ، شیروانی اور ٹوپی میں خراماں خراماں یہاں سے وہاں آتے جاتے دیکھ سکتے ہیں۔
بہرحال علی گڑھ ڈنر کے متعلق ہر برس کوئی نہ کوئی نیا لطیفہ بن جاتا ہے۔ ہمارے چچا کے ایک دوست جو علی گڑھ کو اپنا مادر علمی مانتے ہیں، نے بتایا کہ ان کے زمانے میں کھانے کے لیے لوگ کس طرح ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے کہ ایک بار ایک طالب علم دھکے کے ساتھ سلاد کے دیگ میں جا گرا۔ اسے کسی طرح جب باہر نکالا گیا تو اس کے جسم پر سلاد کے تراشے چپکے ہوئے تھے، کچھ لوگوں نے تو اسی کو چن کر کھا لیا۔
اسی طرح ایک بینائی سے محروم لڑکے کی پہلی بار سر سید ڈنر میں شرکت ہوئی تو اس نے اپنے ایک بینا دوست سے کہا کہ ’جگر (علی گڑھ میں قریبی دوست کو جگر کہتے ہیں)، میرے ساتھ ہی رہنا اور جب کھانا شروع ہو تو مجھے ایک کہنی مارنا تاکہ میں بھی شروع ہو جاؤں۔‘
بھیڑ کی وجہ سے کھانا شروع ہونے سے پہلے ہی دوست کی کہنی کسی طرح نابینا طلبہ کو لگ گئی اور اس نے کھانا شروع کر دیا۔ دوست بہت شرمسار ہوا اور بغیر بولے اس نے رکنے کا اشارہ کرنے کے لیے دوچار کہنی اور لگا دی۔ پھر کیا تھا نابینا طلبہ نے اور تیزی کے ساتھ سے کھانے پر ٹوٹ پڑا ساتھ ہی یہ پوچھتا جتا کہ ’کیا لوٹ شروع ہو گئی ہے؟‘

تھینکس گیونگ ڈنر

اسی طرح کا ایک ڈنر ہے جو امریکہ میں ہر برس منایا جاتا ہے اور اسے ’تھینکس گیونگ‘ یعنی اظہار تشکر کی یاد میں منایا جانے والا ڈنر کہا جاتا ہے۔

’تھینکس گیونگ‘ یعنی اظہار تشکر کی یاد میں منایا جانے والا ڈنر ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

جینی جیکب نے اپنے ایک مضمون ’10 یادگار ڈنرز‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق بہت سے امریکیوں کے لیے تھینکس گیونگ کا مطلب صرف فٹ بال ہے۔ لیکن نومبر کے آخری عشرے میں اس چار روزہ ویک اینڈ کا آغاز اس وقت ہوا جب سنہ 1620 میں پیوریٹینیکل مسیحیوں کا ایک گروپ انگلستان میں ظلم و ستم سے جان بچا کر نکل بھاگا تھا۔
انہوں نے ’نئی دنیا‘ کی طرف سفر کیا لیکن راستے میں گم ہو گئے اور پھر میساچوسٹس کے ساحل پر پہنچے۔ وہ سخت ٹھنڈک، بیماری، بھوک سے مر رہے تھے، اور یہ نہیں جانتے تھے کہ اپنی سرزمین سے باہر کیسے رہنا اور جینا ہے۔
ان کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں اسکوانٹو نامی ایک مقامی امریکی غلام مل گیا جسے انگریزی آتی تھی۔ اس نے پیوریٹن لوگوں کو سکھایا اور بتایا کہ کیسے زندہ رہنا ہے۔ جب انہوں نے پہلی سردیاں گزار لیں اور فصل اگانے میں کامیاب رہے تو انہوں نے اس کی خوشی میں اظہار تشکر کے لیے تھینکس گیونگ کا جشن منایا، ان لوگوں کے شکریہ کے طور پر جنہوں نے ان کی زندہ رہنے میں حقیقی معنوں میں مدد کی تھی۔

فلم ٹائی ٹینک کی دعوت

اگر کہانیوں کی دعوت کی بات کی جائے تو الف لیلہ میں مہینوں چلنے والے جشن اور عشائیے اور پھر اس کے بعد کہانیوں کا ذکر ملتا ہے لیکن فلموں کے رسیا کے لیے فلم ٹائی ٹینک کا ڈنر بہت اہم ہے۔
یہاں تک کہ اس کے کارڈ شائع ہوئے تھے اور اس میں ٹین کورسز یعنی 10 طرح کے کھانوں کا انتظام کیا گیا تھا۔
فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے یہ ڈنر چار یا پانچ گھنٹے پر مشتمل تھا۔ ہر کورس کو کسی خاص کاکٹیل کے ساتھ آراستہ کیا گيا تھا۔

فلموں کے رسیا کے لیے فلم ٹائی ٹینک کا ڈنر بہت اہم ہے۔ (فوٹو: ہاؤس بیوٹی فل)

یہ مرکبات مختلف قسم کے کھانوں کا صحیح ذائقہ حاصل کرنے کے لیے منہ یا تالو کو صاف کرنے جیسا تھا۔ دیگر آئٹمز میں ہائی ٹی کھانوں کے معمولات شامل تھے جن میں سیپ، فائلٹ میگنون، میمنے، بطخ کا بچہ، اور اجوائن کے بنے سالن تھے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کھانے میں کیسا رہا ہو گا، تو اس بدقسمت جہاز کی یاد میں ہر برس ٹائی ٹینک کے شوقین افراد کے درمیان اس ڈنر کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں آپ شرکت کر سکتے ہیں۔ تاہم فلم شائقین تو جانتے ہیں کہ اصل پارٹی تو تیسرے درجے کے مسافروں کے درمیان ہوتی ہے جہاں جیک روز کو بھگا کر لے جاتا ہے اور پھر ٹائی ٹینک جہاز کو اپنے پہلے ہی سفر پر وہ مہلک حادثہ پیش آتا ہے اور تقریباً 1500 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

 

شیئر: