اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ آنجیزہ غونزہ بوجاژیو کو جانتے ہیں تو آپ میں سے 99 فیصد لوگ اس نام سے لاعلمی ظاہر کریں گے۔
لیکن اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ آپ مدر ٹریسا کو جانتے ہیں تو ان کا جواب ہوگا کہ کون نہیں جانتا۔ انڈیا میں سبھی پڑھے لکھے لوگ انہیں جانتے ہیں یا کم از کم ان کا نام تو سن ہی رکھا ہے۔
ساری دنیا انہیں ان کی خدمت کے جذبے اور کاموں کے لیے جانتی ہے یہاں تک کہ انہیں ان کے اس خیر کے کاموں کے لیے نوبل پیس پرائز سے نوازا گیا اور پھر ان کی موت کے بعد انہیں سینٹ کے درجے پر فائز کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
مدر ٹریسا کی زندگی پر فلمNode ID: 404961
-
فنڈنگ پر پابندی ’مدر ٹریسا کا ادارہ خدمت جاری رکھے گا‘Node ID: 630911
مدر ٹریسا نے اپنی زندگی غریبوں، لاچاروں اور ضرورت مندوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔
ہم آج انہیں اس لیے یاد کر رہے ہیں کہ وہ 115 سال قبل آج ہی کے دن 26 اگست 1910 کو سکوپجے، مقدونیہ میں پیدا ہوئیں اور اپنے کام کے ذریعے خدمت خلق کی انوکھی مثال پیش کی۔
مدر ٹریسا ایک البانیائی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے دینی کام اور خدمت میں ان کی دلچسپی تھی۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے لوریٹو سسٹرز کے مشن میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور اسی سلسلے میں 19 سال کی عمر میں 1929 میں ہندوستان پہنچیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ کلکتے (اب کولکتہ) میں بطور استاد کام کرتے ہوئے انہوں نے شہر کی کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کی قابل رحم حالت کو قریب سے دیکھا۔
سنہ 1946 میں ایک روحانی تجربے نے انہیں غریبوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دی جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر خدمت خلق کے لیے وقف کر دی۔
سنہ 1950 میں مدر ٹریسا نے ’مشنریز آف چیریٹی‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بھوکے، بے گھر، اپاہج، نابینا، کوڑھیوں اور معاشرے میں نظرانداز کیے گئے تمام لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔

اس تنظیم نے کولکتہ کی سڑکوں پر بیماروں اور مرنے والوں کی دیکھ بھال شروع کی۔ ان کی پناہ گاہیں غریبوں کے لیے امید کی کرن بن گئیں۔
اسی سال انہوں نے ہندوستان کی شہریت اختیار کی اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔
مدر ٹریسا کے خیر کے کام کی گونج پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ان کی تنظیم نے ہندوستان سے باہر بھی کئی ممالک میں اپنی شاخیں قائم کیں۔
سنہ 1979 میں جب انہیں امن کا نوبل انعام دیا گیا تو ان کے نام کی تجویز پیش کرنے والوں میں عالمی بینک کے اس وقت کے صدر رابرٹ میک نامارا فہرست میں سرفہرست تھے۔
عالمی بینک غربت کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں کو اربوں ڈالر کا قرض دیتا ہے لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ’انسانی ہمدردی‘ دنیا کے تمام ترقیاتی منصوبوں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

میک نامارا نے اس وقت کہا تھا کہ ’مدر ٹریسا نوبل امن انعام کی سب سے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ وہ انسانی وقار کو پامال کیے بغیر امن کو فروغ دینے میں یقین رکھتی ہیں۔‘
جب مدر ٹریسا کو یہ انعام دیا گیا تو انہوں نے نوبل انعام کی تقریب کے بعد ان کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت کو منسوخ کر دینے کی گزارش کی تاکہ اس سے بچنے والی رقم کو کلکتے کے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ حکومت ہند نے انہیں 1962 میں پدم شری اور 1980 میں انڈیا کا سب سے اہم شہری ایوارڈ ’بھارت رتن‘ سے نوازا۔
ان دنوں انڈیا میں الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں ہے لیکن مدر ٹریسا کی زندگی پر کتاب لکھنے کا شرف انڈیا کے ایک چیف الیکشن کمشنر نوین چاولہ کو جاتا ہے۔
نوین چاولہ کی مدر ٹریسا سے ملاقات 1975 میں ایک تقریب میں ہوئی تھی اور اس کے بعد سے وہ ان کے مرید بن گئے۔

نوین چاولہ نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مدر ٹریسا کی مخصوص سفید رنگ کی نیلی کناری والی ساڑھی کے بارے میں ایک بار یہ نوٹس کیا کہ ان کی ساڑھی تو بہت صاف ستھری ہے لیکن اسے جگہ جگہ سے رفو کیا گیا تاکہ یہ پتہ ناں چلے کہ وہ پھٹی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے وہاں موجود ایک سسٹر (خیر کے کام میں ہاتھ بٹانے والی نن) سے پوچھا کہ مدر کی ساڑھی پر اتنی جگہ رفو کیوں کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا ’ہمارا اصول ہے کہ ہم بیک وقت صرف تین ساڑھیاں رکھیں۔ ایک جو ہم پہنے ہوئے ہیں، ایک جو دھونے کے لیے ہے اور ایک خاص مواقع کے لیے ہوتی ہے۔ اس رو سے مدر کے پاس بھی صرف تین ساڑیاں ہیں، یہ غربت یا کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری پسند ہے۔‘
مدر ٹریسا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے اگر کوئی ہاتھ ملا لے تو وہ ان سے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان کے لمس میں ایک عجیب کشش تھی۔

آپ نے ان کی تصویر ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھی ہو گی۔ جب ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہم غریب، بے سہارا اور غمگین لوگوں کے پاس اداس چہرے کے ساتھ نہیں جا سکتے۔‘
نوین چاولہ نے لکھا ہے کہ ان کا حس مزاح بہت زبردست تھا اور وہ جب کسی سسٹر کو اپنے ادارے میں رکھتیں تو اس بات کا خیال رکھتی تھیں کہ ان میں بھی حس مزاح ضرور ہو۔
دنیا بھر کے لوگ ان سے خاص عقیدت رکھتے تھے جن میں امریکی صدر کے ساتھ روسی صدر، انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات بھی شامل تھے۔
