Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امیتابھ بچن سیاست میں: جب سٹارڈم نے ووٹ بینک کو مات دی

نہرو امیتابھ کے والد اور ہندی کے معروف شاعر ہری ونش رائے بچن کا احترام کرتے تھے (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)
انڈیا میں بڑے سے بڑے واقعات رونما ہو جائیں لیکن آپ کو صدی کے عظیم ترین اداکار کہے جانے والے بالی وڈ اداکار امیتابھ بچن کا کوئی سیاسی بیان نظر نہیں آتا ہے۔
وہ سیاست سے اس قدر دور دور رہتے ہیں جیسے کوئی دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہو۔ لیکن آج سے کوئی 40 سال قبل ایسا بالکل نہیں تھا اور حال ہی میں انڈیا کے معروف ٹی وی شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کے جاری 17 سیزن ایک پروگرام میں امیتابھ بچن نے اپنے سیاسی دنوں کو یاد کیا۔
دراصل اس شو کے ایک امیدوار اومکار اداونت نے بتایا کہ انہوں نے ایک بار مہاراشٹر میں جھرنوں کے شہر سے انتخاب میں شرکت کی تھی اور انہیں سب سے کم ووٹ ملے تھے۔
اس بات پر امیتابھ بچن نے بھی اپنے 40 سال پرانے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بڑی اکثریت کے ساتھ جیتا تھا اور وہاں گیا۔ لیکن وہاں کچھ دن گزارنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ بہت ساری چیزوں کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت تھی: کیسے بات کرنی ہے، کس سے بات کرنی ہے، کیا کہنا ہے، وغیرہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘لیکن وہ دو سالہ تجربہ ہمیشہ میری یادوں میں نقش رہے گا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا دل ہندوستان کے دیہاتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے سیکھا کہ وہاں کے لوگ کیسے رہتے ہیں اور جو بھی الیکشن لڑنے آتا ہے، اسے وہ کتنا پیار دیتے ہیں۔ انہیں بہت عزت ملتی ہے۔‘
آئیے امیتابھ بچن کے 83ویں جنم دن 11 اکتوبر کے موقعے پر ان کے سیاسی کريئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے گھرانے سے قریبی تعلق کی وجہ سے ان کے خاندان کا سیاست سے چولی دامن کا ساتھ تھا۔
ان کے والد نہرو کا احترام کرتے تھے اور نہرو امیتابھ کے والد اور ہندی کے معروف شاعر ہری ونش رائے بچن کا احترام کرتے تھے۔ ان دونوں کا الہ آباد کے معروف خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔
امیتابھ کی والدہ تیجی بچن کی اندرا گاندھی سے دوستی تھی جبکہ اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی جو امیتابھ کے ہم عمر تھے، ان دونوں میں اچھی خاصی دوستی تھی۔

امیتابھ بچن کے سامنے ریاست اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ ہیموتی نندن بہوگنا تھے (فائل فوٹو: نیوزایڈ)

سنہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں امیتابھ اپنے کریئر کے عروج پر تھے کہ فلم ’قلی‘ کی شوٹنگ کے دوران ایک حادثہ پیش آ گیا اور امیتابھ کچھ عرصے کے لیے فلموں سے دور ہو گئے لیکن جب وہ رو بہ صحت ہوئے تو ان کا بمبئی کے ساتھ ساتھ دہلی میں قیام بڑھنے لگا اور سیاست کے ایوانوں میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ شاید امیتابھ بچن سیاست میں آنے والے ہیں۔
لیکن امیتابھ بچن نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔ صحافی بی بی ناگپال نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے ان سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے اس طرح کی تمام افواہوں کو مسترد کر دیا تھا، یہاں تک کہ ناراض بھی ہو گئے تھے۔
لیکن پھر فلم ‘قلی‘ کی ریلیز کے بعد امیتابھ کے دہلی کے دورے بڑھنے لگے۔ پھر اچانک امیتابھ بچن کی فلم ’انقلاب‘ جنوری 1984 میں ریلیز ہوئی تو اس نے ایک طرح سے یہ بات طے کر دی کہ ’نظام سے ناراض‘ یہ نوجوان سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
فلم ‘انقلاب‘ آنا فانا بنی تھی۔ اس زمانے میں اسی تھیم پر ایک فلم ’آج کا ایم ایل اے، رام اوتار‘ بن رہی تھی جس میں راجیش کھنہ اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ امیتابھ بچن نے اس فلم کے لیے لگاتار 10 دن تک شوٹنگ کی تھی اور یہ فلم اس وقت ریکارڈ وقت میں مکمل ہوئی تھی۔
یہ سیاست میں بدعنوانی پر مبنی فلم تھی جس میں امیتابھ بچن وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ساری کابینہ کو ایک میٹنگ کے اندر مشین گن سے بھون کر رکھ دیتے ہیں۔
لیکن امیتابھ بچن پھر بھی سیاست سے دور رہے کہ اچانک اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل نے ان کے دوست راجیو گاندھی کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا اور پھر اسی سال دسمبر میں جب عام انتخابات ہوئے تو امیتابھ بچن اپنے حلقے الہ آباد سے پارلیمانی انتخابات کے لیے کانگریس کے امیدوار تھے۔

امیتابھ اور بہوگنا کا یہ مقابلہ سیاست سے زیادہ فلمی نعروں پر مبنی تھا (فائل فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

امیتابھ بچن کے سامنے ریاست اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ ہیموتی نندن بہوگنا تھے لیکن یہ اندرا گاندھی کی محبت میں نہ صرف کانگریس کی آندھی تھی بلکہ امیتابھ بچن کے سٹارڈم کی بھی آندھی تھی۔
ایک بار انتخابی مہم کے دوران امیتابھ بچن اور بہوگنا آمنے سامنے آ گئے۔ امیتابھ نے بہوگنا کو پرنام (سلام) کیا تو انہوں نے انہیں ‘وجے بھوا‘ یعنی فتح یاب ہو جیسے کلمے سے آشیرواد دیا اور ان کا یہ آشیرواد انتخابی نتائج میں سچ ثابت ہوا۔
لیکن یہ مقابلہ سیاست سے زیادہ فلمی نعروں پر مبنی تھا۔ بہوگنا لوک دل کے امیدوار تھے اور لوک دل نے اپنی انتخابی مہم کے لیے کچھ ایسے پوسٹر لگائے جن پر امیتابھ کی معروف فلم ’لاوارث‘ کے گیت کا مکھڑا ‘میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے‘ لکھا تھا۔
یعنی یہ کہ امیتابھ بچن بہوگنا کے انتخابی حلقے میں کیا کر رہے ہیں اور یہ گیت امیتابھ کے ممبئی سے الہ آباد الیکشن لڑنے آنے پر مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
اس کا جواب امیتابھ بچن نے الہ آباد میں میجا روڈ پر منعقدہ ایک جلسہ عام میں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘بہوگنا جی میرے والد کی طرح ہیں۔ میرے والدین نے مجھے ہمیشہ بزرگوں کا احترام کرنا سکھایا ہے۔ میں الہ آباد کی سرزمین پر پیدا ہوا، اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں ملک یا دنیا میں جہاں بھی جاتا ہوں، لوگ مجھے دیکھ کر کہتے ہیں کہ ‘دیکھو، امیتابھ بچن۔۔۔ وہ چھورا گنگا کنارے والا‘۔ یہ دراصل امیتابھ بچن کی فلم ’ڈان‘ کے ایک گیت کا مکھڑا ہے اور اس طرح لوک دل کے فلم ‘لاوارث‘ کے گیت پر منبی پوسٹر کا جواب امیتابھ نے اپنی فلم ’ڈان‘ کے معروف گیت کے ساتھ دیا۔

امیتابھ بچن کی فلم ‘انقلاب‘ جنوری 1984 میں ریلیز ہوئی تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

امیتابھ کا مذاق اڑانے کے لیے ان کے مخالفین نے اس وقت یہ نعرہ بھی تیار کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’سرل نہیں سنسد میں آنا، مارو ٹھمکا گاؤ گانا‘ یعنی پارلیمان میں پہنچنا آسان کام نہیں ہے، آپ رقص کریں اور گیت گائیں۔
اسی طرح یہ نعرہ بھی ان کے خلاف لگایا گیا کہ ’دم نہیں پنجے میں، لمبو پھنسا شکنجے میں‘۔ واضح رہے کہ کانگریس کا انتخابی نشان ہاتھ یا پنجہ چھاپ ہے۔
لیکن امیتابھ نے الہ آباد میں ریکارڈ مارجن سے کامیابی حاصل کی اور پارلیمان پہنچے لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا تھا کہ بچن سیاست سے لطف اندوز نہیں ہو رہے تھے۔ بوفورس سکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ امیتابھ نے 1987 میں اپنے حلقہ انتخاب سے استعفیٰ دے دیا۔
اپنی طرف سے امیتابھ بچن نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ سیاست میں شامل ہونے کا ان کا فیصلہ ‘جذباتی‘ تھا کیونکہ وہ ایک دوست کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں ’احساس ہوا کہ سیاست کا جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔ امیتابھ بچن نے کہا کہ وہ سیاست کرنے سے قاصر ہیں اور اسے چھوڑ دیا۔
انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے سینیئر سیاسی صحافی افتخار گیلانی نے ایک بار کہا کہ ’بچن سیاست میں اس وقت آئے جب وہ اپنے کرئیر کے عروج پر تھے۔ ایک رومانوی ہیرو سے زیادہ، وہ ایک اینگری ینگ مین یعنی ناراض نوجوان تھے، جو سسٹم کو سنبھال کر نظام کو بدلنے کے لیے نکلے تھے۔ لیکن جب وہ ایم پی بنے تو وہ ایک مختلف شخص تھے، اسی نظام کے ساتھ ہم آہنگ تھے۔‘

امیتابھ بچن نے کہا ہے کہ انہیں ایک سیاست دان کے طور پر کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر افسوس ہے (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)

افتخار گیلانی نے مزید کہا کہ بوفورس کیس میں مبینہ روابط اور پھر ان کے حلقے کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں شرکت نہ کر پانے نے ان کے مداحوں کو مایوس کیا۔
انہوں نے کہا ’بچن نے ایک سیاسی قدآور کو شکست دی تھی لیکن وہ ان کے سیاسی جوتوں میں قدم نہیں رکھ سکے تھے۔ شاید وہ جوتے ان کے پاؤں کے مناسب نہیں تھے۔‘
یہاں تک کہ اپنے انٹرویوز میں امیتابھ بچن نے کہا ہے کہ انہیں ایک سیاست دان کے طور پر کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر افسوس ہے۔
لیکن سیاست چھوڑنے کے تقریباً ایک دہائی بعد، امیتابھ بچن مالی بحران میں ڈوب گئے جن کی کشتی طوفان سے سماج وادی پارٹی کے رہنما اور دوست امر سنگھ نے پار لگائی۔

امیتابھ کی اہلیہ جیا بچن سماج وادی پارٹی کے کوٹے سے راجیہ سبھا کی رکن بنیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

بعد میں  سمہ 2004 میں امیتابھ کی اہلیہ جیا بچن، سماج وادی پارٹی کے کوٹے سے راجیہ سبھا کی رکن بنیں۔ اگرچہ وہ کبھی کبھی اپنے ٹویٹس کے ذریعے کانگریس کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے لیکن مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے گاندھیوں کا ذکر نہیں کیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ گاندھیوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے تو امیتابھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’آپ دوستی میں ایسی باتیں کیسے کرتے ہیں؟ ہم دوست ہیں۔‘
بہرحال امیتابھ بچن کو جہاں انہیں اداکاری میں کمال کے لیے یاد کیا جائے گا وہیں سیاست میں ان کا زوال بھی تاریخ کا حصہ رہے گا۔

شیئر: