Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی دوبارہ بحال کر دی، امدادی سامان کی ترسیل آج سے ہوگی

غزہ میں جنگ بندی کو اتوار کے روز پہلا بڑا امتحان اس وقت پیش آیا جب اسرائیلی افواج نے فضائی حملوں کی ایک نئی لہر شروع کی۔ اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے جنگجوؤں نے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا جس کے بعد یہ حملے شروع کیے گئے۔ اسی دوران ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ علاقے میں امداد کی ترسیل عارضی طور پر روک دی گئی ہے۔
بعد ازاں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے جنگ بندی کو دوبارہ بحال کر دیا ہے، جبکہ اہلکار نے تصدیق کی کہ امدادی سامان کی ترسیل پیر سے دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔
 دریں اثنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اب بھی برقرار ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران پوچھا گیا کہ آیا جنگ بندی ابھی بھی برقرار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ ہاں، یہ برقرار ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ حماس کی اعلیٰ قیادت کسی ممکنہ خلاف ورزی میں ملوث نہیں بلکہ ’کچھ اندرونی باغی عناصر‘ اس کے ذمے دار ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’لیکن بہرحال، اسے صحیح طریقے سے نمٹا جائے گا۔ سختی سے لیکن منصفانہ طور پر۔‘
اسرائیل نے کہا کہ اس نے اتوار کے روز حماس کے ٹھکانوں پر حملے کے بعد غزہ میں جنگ بندی کا نفاذ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس نے اس کی فوج پر حملہ کیا تھا، جو نو دن پہلے طے پانے والی جنگ بندی کے بعد سب سے سنگین جھڑپ تھی۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق اسرائیلی حملوں میں کم از کم 45 افراد جان سے گئے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ ہلاکتوں کی اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ ان کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی برقرار رہے گی۔

امریکی نائب صدر نے کہا کہ حماس اسرائیل پر فائر کرے گی، اور اسرائیل کو جواب دینا ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ حماس کے ساتھ امن برقرار رہے۔‘ ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں، وہ کافی بے قابو رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ فائرنگ کی ہے، اور ہمیں لگتا ہے کہ شاید قیادت اس میں شامل نہیں۔‘
ٹرمپ کے بیان سے کچھ دیر پہلے نائب صدر جے ڈی وینس نے غزہ میں تازہ تشدد کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ بندی کے دوران ’اتار چڑھاؤ‘ آتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’حماس اسرائیل پر فائر کرے گی، اور اسرائیل کو جواب دینا ہوگا۔
لہٰذا ہمیں لگتا ہے کہ یہ پائیدار امن کے لیے بہترین موقع ہے۔ لیکن اس کے باوجود، اس میں نشیب و فراز آئیں گے اور ہمیں صورتحال پر نظر رکھنی ہوگی۔‘
فلسطینی علاقے میں 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والی جنگ بندی نے دو سال سے جاری تباہ کن جنگ کو روکا، جس میں اسرائیل نے دسیوں ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کیا اور غزہ کے بیشتر حصے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔
اس معاہدے میں قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کا فریم ورک شامل تھا اور غزہ کے مستقبل کے لیے ایک جامع منصوبہ بھی پیش کیا گیا تھا، تاہم اس پر عملدرآمد میں فوری چیلنجز کا سامنا ہے۔
جے ڈی وینس نے خلیجی عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ ’سکیورٹی ڈھانچہ‘ قائم کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حماس کو غیر مسلح کیا جائے، جو امن معاہدے کا ایک اہم جزو ہے۔
 

شیئر: