ہر سال ہزاروں پاکستانی ورک اور سٹڈی ویزے پر مختلف ممالک کا رخ کرتے ہیں مگر صرف سیاسی پناہ کے لیے ان کی اولین ترجیح اٹلی دکھائی دیتی ہے۔
محکمہ پاسپورٹس اینڈ امیگریشن کے مطابق اب تک صرف اٹلی میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی شہری جرمنی، فرانس، برطانیہ، سویڈن سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرواتے ہیں، جبکہ کینیڈا اور امریکہ میں بھی وہ اس حوالے سے کوششیں کرتے ہیں۔
مجموعی رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ ہر سال سینکڑوں پاکستانی مختلف وجوہات کی بنیاد پر بیرون ملک سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
تارکینِ وطن پر مزید سختی، امریکہ نے 85 ہزار ویزے منسوخ کر دیےNode ID: 898140
اسی پس منظر میں ہم یہاں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں اٹلی میں سیاسی پناہ کیوں حاصل کر رہے ہیں؟
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کا محکمۂ پاسپورٹس اور امیگریشن اُن پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ کی تجدید نہیں کرتا جو سیاسی پناہ لے چکے ہوں۔

محکمے کا مؤقف ہے کہ جو شخص اپنا پاسپورٹ سرنڈر کر کے پناہ لیتا ہے، اسے دوبارہ پاسپورٹ جاری کرنا انتظامی طور پر مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے سیاسی پناہ لینے والوں کے پاسپورٹ کی تجدید پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
محکمہ پاسپورٹ نے اس پابندی کو قانونی شکل دینے کے لیے نئے قواعد بھی کابینہ کمیٹی کو ارسال کیے ہیں جن پر جلد عملدرآمد کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد کے سیاسی پناہ لینے کی وجہ سے حکومت کو مختلف ممالک کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔ بعض ممالک نے پاکستان کے لیے ویزا پراسیسنگ بھی سست یا محدود کر دی ہے۔
یورپی یونین سمیت کئی وفود نے پاکستان کا دورہ کر کے یہ خدشات ظاہر کیے اور انہی وفود نے وزارت داخلہ اور پاسپورٹ آفس کو یہ اعداد و شمار بھی فراہم کیے کہ صرف اٹلی میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔
امیگریشن کے ماہرین اس صورتحال کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق اٹلی میں کام کے زیادہ مواقع، حکومت کی نرم امیگریشن پالیسی اور وہاں تک رسائی کے نسبتاً زیادہ راستے پاکستانیوں کے لیے پناہ کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔
اٹلی ایک زرعی ملک
کراچی میں مقیم سینیئر وکیل اور امیگریشن ماہر یاسر شمس نے اردو نیوز کو بتایا کہ اٹلی بنیادی طور پر ایک زرعی ملک بھی ہے جس کی وجہ سے خاص طور پر پنجاب کے شہری وہاں زرعی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے بعض علاقوں کے پورے خاندان اٹلی میں مقیم ہیں، اور انہی نیٹ ورکس کے ذریعے لوگ غیرقانونی طور پر یورپ پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروا دیتے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستانی بڑی تعداد میں سٹوڈنٹ ویزا پر بھی اٹلی جاتے ہیں، جبکہ اب اٹلی زیادہ ورک پرمٹس جاری کر رہا ہے جس سے وہاں جانے کا رجحان اور بڑھ گیا ہے۔
یاسر شمس کے مطابق اٹالین ایمبیسی اور متعلقہ تھرڈ پارٹی کے دفاتر سے اپائنٹمنٹ حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود شہری مختلف ممالک کے راستے ہوتے ہوئے اٹلی پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
’اٹلی امیگریشن بند نہیں کرتا‘
اسی طرح اسلام آباد میں امیگریشن خدمات فراہم کرنے والے ماہر میجر (ر) بیرسٹر ساجد مجید کہتے ہیں کہ اٹلی یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں امیگریشن کا عمل کبھی مکمل طور پر بند نہیں ہوتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جہاں سکنڈینیوین یا مشرقی یورپی ممالک اپنی امیگریشن پالیسیاں سخت یا بند کر دیتے ہیں، وہاں اٹلی کا پراسیس سارا سال جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے یہ پاکستانیوں کے لیے ایک مضبوط آپشن بن جاتا ہے۔
انہوں نے ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی پیش کیا کہ اٹلی کے کچھ علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کمزور ہے اور سسلیین مافیا کے حوالے سے شہرت بھی موجود ہے، اس لیے کچھ پاکستانی اس ماحول میں بھی خود کو بہتر طور پر ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔
ساجد مجید کے مطابق اگرچہ پاکستان سے براہ راست اٹلی جانے کے قانونی راستے محدود ہیں، لیکن لوگ ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کے راستے یورپ پہنچتے ہیں اور پھر بحیرہ روم عبور کر غیرقانونی طور پر اٹلی پہنچتے ہیں۔ ماضی میں بھی بہت سے پاکستانی سمندری راستے سے اٹلی تک پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دیتے رہے ہیں۔

شہری سیاسی پناہ کن وجوہات پر حاصل کرتے ہیں؟
اس سوال کے جواب ساجد مجید کا کہنا تھا کہ زیادہ تر پاکستانی سیاسی، مذہبی یا جنس یا صنفی شناخت کے تنازعے کی بنیاد پر ہی سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں۔
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چونکہ اٹلی کا ایک مضبوط مذہبی پس منظر ہے اور وہاں رومن کیتھولک عیسائی بڑی تعداد میں مقیم ہیں، اس لیے مذہبی بنیادوں پر بھی پاکستانی شہری سیاسی پناہ کی درخواست جمع کراتے ہیں۔
کیا پاسپورٹ کی تجدید روکنا درست ہے؟
اس سوال پر بیرسٹر ساجد مجید نے بتایا کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ان کی سرگرمیوں اور حکومت پر پڑنے والے دباؤ کو دیکھتے ہوئے یہ اقدام کسی حد تک درست ہے کہ ایسے شہریوں کے پاسپورٹس کی تجدید نہ کی جائے۔












