Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا ڈیجیٹل نظام: اوورسیز اب فیشل ویریفیکیشن سے بھی شناخت کرا سکیں گے

پہلے صارفین کو اپنی شناخت کی تصدیق کے لیے ایک فنگرپرنٹ فارم پرنٹ کرنا پڑتا تھا (فائل فوٹو: فری پِک)
پاکستان میں آن لائن پاسپورٹ نظام کو عملی طور پر مکمل ڈیجیٹل بنانا ایک ایسا ہدف تھا جس تک پہنچنے میں کئی سال لگے۔
اس دوران سب سے بڑی رکاوٹ بائیومیٹرک تصدیق کا وہ طریقہ تھا جو خصوصاً اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک پیچیدہ اور غیرمؤثر مرحلہ بن چکا تھا۔
جب کوئی شہری خاص طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانی آن لائن پاسپورٹ پورٹل کے ذریعے درخواست جمع کراتے تھے تو انہیں اپنی شناخت کی تصدیق کے لیے ایک فنگرپرنٹ فارم پرنٹ کرنا پڑتا تھا۔
اس فارم پر انہیں سیاہی لگا کر انگلیوں کے نشانات ہاتھ سے چھاپنے ہوتے تھے اور پھر اس فارم کی تصویر یا سکین پورٹل پر اپ لوڈ کرنا پڑتا تھا۔ 
بظاہر یہ طریقہ آسان دکھائی دیتا تھا مگر عملی طور پر سب سے زیادہ مسائل یہی مرحلہ پیدا کرتا تھا کیونکہ موبائل فون یا سکینر سے بنائی گئی تصاویر میں فنگر پرنٹس یا تو دھندلے ہوتے تھے یا سیاہی زیادہ کم ہونے سے ناقابلِ تصدیق رہتے تھے یا فارم ٹیڑھا سکین ہونے کی وجہ سے سسٹم انہیں مسترد کر دیتا تھا۔
اس کے نتیجے میں درخواستیں ہفتوں تک التواء کا شکار رہتیں اور کئی اوورسیز پاکستانی اپنی درخواست دوبارہ مکمل کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
اسی تناظر میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پاسپورٹس اینڈ امیگریشن نے نادرا کے تعاون سے فنگر پرنٹس کی تصدیق کا ایک نیا، مکمل ڈیجیٹل اور خودکار نظام متعارف کرایا ہے۔
اب فنگرپرنٹس فارم، سیاہی، سکیننگ اور تصاویر اپ لوڈ کرنے کا جھنجھٹ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اس کے بجائے نادرا کی ’پاک آئی ڈی‘ موبائل ایپ میں ایک ایسا بائیومیٹرک فیچر شامل کیا گیا ہے جو شہریوں کو اپنے فنگر پرنٹس براہِ راست موبائل کیمرے کے ذریعے سکین کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
یوں وہ تمام مسائل جن کی وجہ سے درخواستیں بار بار مسترد ہوتی تھیں، سسٹم سے خود بخود ختم ہو گئے ہیں۔

ماضی میں انگلیوں کے نشانات دھندلے ہونے کی وجہ سے پوری درخواست مسترد ہو جاتی تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

نئے نظام کے مطابق جب آن لائن پاسپورٹ درخواست بائیومیٹرک مرحلے تک پہنچتی ہے تو صارف کو ہدایت ملتی ہے کہ وہ پاک آئی ڈی موبائل ایپ کھول کر بائیومیٹرک ویریفکیشن کے سیکشن میں ’آن لائن پاسپورٹ‘ کا آپشن منتخب کرے۔
اس کے بعد صارف اپنے پاسپورٹ کی ٹریکنگ آئی ڈی اور شناختی کارڈ نمبر درج کرتا ہے جس کے بعد ایپ اسے مرحلہ وار گائیڈ کرتی ہے کہ موبائل کیمرے کے ذریعے انگلیاں کیسے سکین کرنی ہیں۔ روشنی، زاویہ، فریم اور انگلیوں کی حرکت ، ایپ ان سب مراحل کی نگرانی خود کرتی ہے اور تصدیق اس وقت تک مکمل نہیں ہونے دیتی جب تک فنگرپرنٹس واضح طور پر ریکارڈ نہ ہو جائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے انگلیوں کے نشانات بار بار ناکام ہو جائیں جیسا کہ زیادہ عمر، جلد کی خشکی یا محنت طلب کام کرنے والے افراد کے ہاتھوں کی وجہ سے ہوتا ہے تو ایپ صارف کو فوری طور پر ’فیشل ویریفکیشن‘ کا متبادل فراہم کرتی ہے۔
اس مرحلے میں صارف اپنا چہرہ کیمرے کے سامنے کرتا ہے اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے نظام چند سیکنڈ میں شناخت کی توثیق مکمل کر لیتا ہے۔
ماضی میں جہاں انگلیوں کے نشانات دھندلے ہونے کی وجہ سے پوری درخواست مسترد ہو جاتی تھی، اب چہرے کی شناخت سے وہ رکاوٹ بھی دور ہو چکی ہے۔
تصدیق مکمل ہوتے ہی ایپ پر ایک تصدیقی پیغام ظاہر ہوتا ہے اور شہری کو دوبارہ آن لائن پورٹل پر جا کر اپنی درخواست جمع کرانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اس عمل کے بعد نہ تو پاسپورٹ دفتر جانے کی ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی کسی فارم کو پرنٹ کرنے، سیاہی لگانے یا سکین کی فکر باقی رہتی ہے۔

اس تبدیلی نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے راستہ ہموار کیا ہے (فائل فوٹو: پروپاکستانی)

اس تبدیلی نے نہ صرف اوورسیز پاکستانیوں کے لیے راستہ ہموار کیا ہے بلکہ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے بھی پاسپورٹ سسٹم کو حقیقت میں ایک ’ون ونڈو ڈیجیٹل سروس‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔
صارفین نے پاک آئی ڈی ایپ کے ذریعے فنگر پرنٹس ویریفیکیشن کے اقدام کو تو احسن قرار دیا ہے لیکن ان کا مطالبہ ہے آن لائن پاسپورٹ درخواست کے دوران فیس پہلے وصول کی جاتی ہے جبکہ ویریفیکیشن کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ جس سے بعض اوقات ویریفیکیشن نہ ہو سکنے سے فیس وقت سے پہلے ہی وصول کر لی جاتی ہے، اگر فیس ویریفیکیشن کے بعد وصول کی جائے تو اس سے شہریوں کی تسلی ہو جائے گی۔ 
ایک صارف راجہ ظہور احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت زبردست فیچر ہے میں نے کل ہی فنگر پرنٹس کے لیے فارم پرنٹ کروایا تھا اب میں آن لائن فنگر پرنٹس کی تصدیق کر سکتا ہوں۔‘
جہاں بہت سے صارفین اس پیش رفت کو احسن قرار دیتے ہیں وہیں محکمہ پاسپورٹ سے شکوہ بھی کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شجیع الرحمان نے بتایا کہ ’پہلے پاک آئی ڈی ایپ بنائی پھر اس کو ویریفائی کیا، بڑی مشکل سے اس کا کوڈ آیا پھر اس کے بعد پاسپورٹ پورٹل پر جا کر سارا مکمل کیا۔ شروع سے لے کر آخر تک جب فنگر پرنٹ ویریفائی کرنے کا ٹائم آیا تو ٹریکنگ آئی ڈی لگانے کے بعد ناظرہ ایپ پاک آئی ڈی ایپ میں فنگر پرنٹ بھی ویریفائی ہو گئے اور وہاں لکھا ہوا آیا کہ ای پورٹل پر جا کے اپنا پاسپورٹ مکمل کرو تو جب وہاں جا کے سیو کا آپشن دبایا تو لکھا ہوا تھا کہ فنگر پرنٹ ویریفائی نہیں ہوئے۔ پاسپورٹ آفس کا وزٹ کریں۔‘ ’یوں چار سے پانچ گھنٹے ضائع ہو گئے۔ کیا فائدہ اس کا وہاں سے ویریفائی ہو گئے اور یہاں لکھا ہوا ہے کہ ویریفائی نہیں ہوئے۔‘

شیئر: