’بدروحیں اُترتی ہیں‘، ہیلووین پر کدو کو خوفناک شکل کیوں دی جاتی ہے؟
’بدروحیں اُترتی ہیں‘، ہیلووین پر کدو کو خوفناک شکل کیوں دی جاتی ہے؟
جمعہ 31 اکتوبر 2025 6:01
ذرا تصور کیجیے کہ ہمارے اڑوس پڑوس میں سے کوئی سیدھا سادا شخص امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں گیا ہوا ہے اور رات کی ڈیوٹی کے بعد دن کو نیند پوری کر کے شام کے وقت کمرے سے نکلتا ہے تو کچھ گھروں کے دروازوں پر مکڑی کے جالے دیکھ کر ٹھٹھکتا ہے اور صفائی پسندی کے لیے مشہور گوروں کی اس حرکت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔
پھر اچانک نظر کچھ گھروں کے باہر پڑے بڑے بڑے کدوؤں پر پڑتی ہے جن کی آنکھیں بھی ہیں اور دانت بھی، وہ گھبرا کر تیز تیز ڈگ بھرتا ہی ہے کہ پیچھے سے کوئی چڑیل آ کر دبوچ لیتی ہے، وہ جان چھڑا کر بھاگتا ہے تو راستے میں زومبیز بھی ملتے ہیں اور کفن پوش زندہ لاشیں بھی جن کے ناخنوں اور منہ پر خون ٹپک رہا ہے۔
ہے تو اور بھی بہت کچھ مگر ۔۔۔۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔ مزید تصور مت کیجیے اور دعا کیجیے کہ وہ مضبوط دل کا مالک ہو۔
یہ منظر اسی ایونٹ کا ہے جس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے یہی مشہور کوٹ کافی ہے کہ ’جو بھی کرو مگر آج کی رات سونا مت، ورنہ مر کر بھی ہماری ہی پارٹی میں آنا پڑے گا۔‘
جی ہاں اس میں اسی تہوار کی طرف اشارہ ہے جس کا خوشی سے بظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس سے قبل خوف بِکتا ہے اور لوگ ہنسی خوشی ’موت کا سامان‘ خریدتے ہیں۔
ہیلووین نامی یہ تہوار ہے کیا، آیا کہاں سے، سب اس روز خوف کا لطف اٹھانے پر کیوں تل جاتے ہیں، یہ کب منایا جاتا ہے اور آخر کدو کا اس سے کیا تعلق ہے؟
اس بارے میں بریٹینکا ڈاٹ کام سمیت دیگر ویب سائٹس پر کافی معلومات دی گئی ہیں۔
فیسٹیول کی آمد سے قبل ہوٹلوں اور سٹورز میںخصوصی طور پر خوفناک چیزیں لگائی جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
لفظ ہیلووین کا مطلب کیا ہے؟
اس کا پہلا حصہ ہالو مقدس کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا حصہ ایوننگ یعنی شام کو ظاہر کرتا ہے مطلب یہ تصور مسیحی مذہب سے تعلق کی ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے۔
بدروحوں کی زمین پر آمد
یہ فیسٹیول برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک میں 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اس کو ’بدروحوں کی زمین پر آمد‘ کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ اس رات تمام لوگ ایسا روپ دھارتے ہیں کہ اگر کوئی اس فیسٹیول سے لاعلم شخص ان کے درمیان چلا جائے تو اسے ایسا ہی محسوس ہو گا کہ وہ کسی ہارر فلم کے اندر چلا گیا ہے۔
فیسٹیول کی آمد سے کئی روز قبل ہی دکانوں پر ایسی چیزیں بکنا شروع ہو جاتی ہیں جو انسان کو خوفزہ کر دیتی ہیں تاہم جب انہیں پہن کر لوگ نکلتے ہیں تو سنسناہٹ کو ریڑھ کی ہڈی تک پہنچنے میں نہیں لگتی۔
ٹرِک آر ٹریٹنگ
لوگ بھوت پریت، چڑیلوں اور انسانی ڈھانچوں کے لباس میں گلیوں میں نکلتے ہیں، مختلف آوازیں نکالتے ہیں اور ایک دوسرے کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کو منانے کے پیچھے یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ انہوں نے خوف کو شکست دینی ہے۔
بچے خوفناک روپ دھار کر ’ٹرِک آر ٹریٹ‘ کی فرمائش کرتے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)
اس کا ایک اہم حصہ ٹرِک آر ٹریٹ بھی ہے، جس میں بچے چڑیلیں اور بھٹکتی ہوئی روحیں بن کر لوگوں کے گھروں پر جا کر دستک دیتے ہیں اور ساتھ ہی ’ٹرِک آر ٹریٹنگ‘ کا آپشن بھی پیش کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں ٹافیاں دو ورنہ پھر ان کی شرارتوں کو جھیلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ لوگ ان کے لیے پہلے سے ہی میٹھے کا انتظام کر کے رکھتے ہیں۔
تاریخی پس منظر
ویسے تو ہیلووین کو امریکی تہوار سمجھاجاتا ہے جو بعدازاں یورپ پہنچا مگر تاریخ دان اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
امریکہ میں پہلی بار باقاعدہ طور پر ہیلووین 1921 میں ریاست منی سوٹا میں منایا گیا تھا، جس کے بعد اس بارے میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی رہی اور چند ہی برسوں میں دنیا کا مشہور فیسٹیول بن گیا۔
شروعات کہاں سے ہوئی؟
ایسی روایات موجود ہیں کہ اس کی جڑیں مسیحی اور سیمہین عقائد سے ملتی ہیں جو ایک قدیم سیلٹک تہوار تھا اور موسم گرما کے اختتام اور سردی کے آغاز کے وقت 31 اکتوبر کے قریبی دنوں میں منایا جاتا تھا۔
اس وقت کے لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ اس محدود وقت کے دوران زندہ اور مردہ اجسام کے درمیان سے پردہ ہٹ جاتا ہے اور بدروحیں زمین کا رخ کرتی ہیں، اس لیے ان سے بچنے کے الاؤ جلائے جاتے اور عجیب و غریب لباس پہنے جاتے۔
لوگ ایونٹ سے قبل مکڑی کے جالوں کی طرح کا مواد لگا کر گھروں کو خوفناک بناتے ہیں (فوٹو: فری پک)
بعدازاں یہ سلسلہ ہیلووین کے طور پر آگے بڑھا جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ قبل از مسیح کا تہوار ہے جس کی شروعات یورپ سے ہوئی۔ اس وقت آئرلینڈ اور فرانس کے قبائل کا ماننا تھا کہ موسم سرما دراصل ان کے لیے موت کا پیغام ہوتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں سردیوں میں زیادہ اموات ہوتی تھیں۔
ہیلووین کا کدو (پمپکن) کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
پیٹھا کدو ہیلووین کا ایک اہم آئٹم ہے، اس روز بڑے بڑے کدوؤں کو اندر سے خالی کر کے ان کی آنکھیں اور دانت بنائے جاتے ہیں جبکہ اندر دیا یا موم بتی رکھی جاتی یا پھر بلب جلایا جاتا ہے۔ جس کے باعث اندر سے پراسرار سی روشنی پھوٹتی ہے۔ انہیں ایسے نیم اندھیرے میں رکھا جاتا ہے کہ نظر پڑتے ہی خوف کا احساس ہوتا ہے۔
تاریخی طور پر بھی اس ایونٹ کا کدو سے کافی گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آئرلینڈ کے کسانوں نے پہلی بار شلجم کو خوفناک شکل میں تراشا تھا جس کو ’جیک او لینٹرن‘ کہا جاتا ہے بعدازاں یہ سلسلہ کدو تک پہنچا۔
ضیافتوں کا اہتمام
ایونٹ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس رات کھانے کی بڑی بڑی محفلیں بھی سجتی ہیں جہاں کدو سے بنے پکوان بطور خاص رکھے جاتے ہیں جن میں سالن کے علاوہ اس سے میٹھی ڈشز بھی تیار کی جاتی ہیں۔
ہیلووین کے موقع پر خصوصی ضیافتوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے (فوٹو: روئٹرز)
بزنس فرینڈلی ایونٹ
کسی بھی تہوار کی طرح ہیلووین کی آمد سے قبل بھی اس سے متعلق چیزوں کی فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور کاروباری افراد اس کو بزنس فرینڈلی موقع قرار دیتے ہیں۔ ہوٹلوں، ریستورانوں، سٹورز اور سٹالز تک کو ایسے سجایا جاتا ہے جیسے کسی خوفناک مووی کا سیٹ ہو۔
بڑے بڑے ہوٹلوں میں خوف کا سامنا کرنے کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں جس کے لیے لوگ مہنگے ٹکٹ بھی خریدتے ہیں۔
اسی طرح رات کے وقت شہروں میں ایسی پریڈز بھی کی جاتی ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے کسی بھوت یا چڑیل کی بارات جا رہی ہو۔
ہارر پارٹیز اور موویز
اس رات کی ایک اہم سرگرمی ایسی پارٹیوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے جہاں ہر طرف خوف پھیلا ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ اس موقع پر مل کر خوفناک فلمیں بھی دیکھتے ہیں۔
دوست پارٹیز اور اکٹھے ہارر موویز دیکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
اس ایونٹ کے بارے میں بہت سی فلمیں بھی بن چکی ہیں، جن میں کچھ مشہور فلموں کے نام ہیلووین ، دی ایگزارسٹ، سائیکو، دی شائننگ، دی ٹیکساس چینسا میسیکر اور سکریم ہیں۔
2025 کا ہیلووین کہاں کہاں منایا جا رہا ہے؟
امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، میکسیکو وغیرہ کے علاوہ کئی مغربی ممالک میں بھی کئی دہائیوں سے ہیلووین کا فیسٹیول بہت مقول ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید ممالک بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں جن میں ایشیائی ممالک بھی ہیں جیسے جاپان، انڈیا، ہانگ کانگ وغیرہ جبکہ اسلامی ممالک میں بھی اس فیسٹیول کو منانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور پچھلے چند سالوں کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی اس کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں۔