’ذہنی دباؤ میں تھے‘، خودکشی کرنے والے ایس پی کی ماہر نفسیات سے کیا بات ہوئی؟
’ذہنی دباؤ میں تھے‘، خودکشی کرنے والے ایس پی کی ماہر نفسیات سے کیا بات ہوئی؟
جمعہ 24 اکتوبر 2025 6:46
صالح سفیر عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
عدیل اکبر حال ہی میں حال ہی میں انڈسٹریل ایریا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تعینات ہوئے تھے (فوٹو: اسلام آباد پولیس)
جمعرات کو مبینہ طور پر خودکشی کرنے والے اسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کے بارے میں ماہر نفسیات کا بیان سامنے آیا ہے۔
واقعے کے چند گھنٹے بعد پمز ہسپتال سمیت دیگر مختلف اداروں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر حافظ سلمان محمد نے سوشل میڈیا پر ایک تفصیلی پوسٹ میں لکھا کہ ’اہل خانہ کو کہا تھا کہ ہتھیار یا تیز دھار اشیا ان سے دور رکھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ کل رات ہی میرے پاس آئے تھے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ میں ہیں اور فوری طور پر پمز کے پرائیویٹ وارڈ میں داخل ہو جائیں، مگر انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ڈپریشن پر خود قابو پا لیں گے لیکن بدقسمتی سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں انہوں نے خودکشی کر لی۔‘
ان کے مطابق ’کیفیت سمجھ سے بالاتر اور بیان سے باہر ہے۔‘
رابطے پر ڈاکٹر حافظ سلطان محمد نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پوسٹ ان کے اکاؤنٹ سے ہی کی گئی۔‘
انہوں نے پوسٹ میں مزید لکھا کہ ’ایس پی عدیل نے بتایا تھا کہ وہ دو مرتبہ سی ایس ایس امتحان پاس کر چکے ہیں اور اپنے بیچ میں نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی۔ ان کی حالیہ پوسٹنگز نہایت سخت رہیں۔ پہلے کوئٹہ، پھر تربت، اور اب حال ہی میں وہ 10 دن کے لیے کشمیر میں تعینات تھے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی ڈپریشن کا تعلق ان پوسٹنگز سے نہیں بلکہ یہ کیفیت ایسی ہے جو سمجھ سے بالاتر اور بیان سے باہر ہے۔
ڈاکٹر حافظ سلمان کے مطابق ’بدقسمتی سے ہماری ملاقات کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں انہوں نے ایک انتہائی قدم اٹھا لیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدیل اکبر کی اہلیہ بھی ڈاکٹر ہیں جبکہ ان کی ایک تین سالہ بیٹی ہے جس سے وہ گزشتہ رات بڑی محبت سے بات کر رہے تھے۔
وزیر مملکت طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)
پوسٹ کے مطابق ’میں نے ان کے اہلِ خانہ کو کہا تھا کہ تمام ہتھیار اور تیز چیزیں ان سے دور رکھیں مگر تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔‘
پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد میں بطور ایس پی انڈسٹریل ایریا تعینات عدیل اکبر نے گزشتہ روز ساڑھے چار بجے کے قریب سرینہ ہوٹل کے نزدیک اپنی گاڑی میں مبینہ طور پر خودکشی کی تھی۔ رات گئے پولیس لائنز میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس کے بعد ان کی میت کو ان کے آبائی علاقے روانہ کر دیا گیا۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے اب تک ایس پی عدیل اکبر کی موت کی اصل وجہ تو نہیں بتائی گئی تاہم اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں تاہم ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ شاید عدیل اکبر شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔
واقعے کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا تھا کہ ’ہمیں اسلام آباد پولیس کے جوان افسر کے جانے کا بے حد افسوس ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی اُن کو بلوچستان سے ریکوزیشن پر وزارت داخلہ لے کر آئے تھے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تین ڈی آئی جیز پر مشتمل ٹیم تشکیل دی ہے اور تمام پہلوؤں کو دیکھا جا رہا ہے۔ اُن کے گن مین اور ڈرائیور بھی ساتھ تھے جن سے گفتگو کی جا رہی ہے۔”
عدیل اکبر کی میت آبائی علاقے گوجرانوالہ روانہ کر دی گئی ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)
ایس پی عدیل اکبر کون تھے؟
اسلام آباد پولیس نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’عدیل اکبر پولیس سروس آف (پاکستان پی ایس پی) کے ایک قابلِ احترام افسر تھے۔ حال ہی میں اسلام آباد پولیس میں انڈسٹریل ایریا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر شامل ہوئے تھے۔‘
انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد سے گورننس اور پبلک پالیسی میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کیا اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں نمایاں خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے کئی پولیس یونٹس کی قیادت کی۔
ان کی مہارت کے شعبے سکیورٹی مینجمنٹ، کمیونٹی پولیسنگ، انسانی حقوق کا تحفظ، انسداد دہشت گردی، انسانی وسائل کا انتظام، پولیس آپریشنز، سکیورٹی تجزیہ اور بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت پر محیط تھے۔
ایس پی عدیل اکبر کو رواں ماہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے فلبرائٹ سکالرشپ بھی ملا تھا۔