فرینکلی سپیکنگ: علاقائی تنازعات کو مغربی میڈیا کس طرح دیکھتا ہے؟
فرینکلی سپیکنگ: علاقائی تنازعات کو مغربی میڈیا کس طرح دیکھتا ہے؟
پیر 27 اکتوبر 2025 10:08
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے کے بعد سے غزہ میں ستمبر کے وسط تک 252 صحافی مارے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
اگرچہ ناقدین غزہ میں ’نسل کشی‘ کے حوالے سے مغربی میڈیا پر اعتراض کرتے ہوئے اسرائیلی بیانیے کو آگے بڑھانے اور مقامی صحافیوں پر حملوں سے صرف نظر برتنے کا الزام لگاتے ہیں، تاہم مغربی میڈیا اس بارے میں کیا موقف رکھتا ہے، اس بارے میں امریکی نیوز چینل سی این این سے وابستہ سینیئر صحافی سے گفتگو کی گئی ہے۔
عرب نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں سی این این کے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر اور سینیئر صحافی نک رابرٹسن نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے میڈیا پر بندشوں کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا انحصار مقامی رپورٹرز کی فراہم کردہ معلومات پر ہے جن کو سٹوریز کے لیے جان خطرے میں ڈالنا پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہم فلسطینیوں کی مشکلات کے حوالے سے اطلاع دینے کے لیے بہت زیادہ کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے غزہ کے حوالے سے بتایا کہ ’وہاں کے لیے ہمارے پاس ٹیم ہے جو رپورٹس بھیجتی ہے، ہم روز ان سے رابطے میں رہتے ہیں، جس کی بدولت ہمیں اطلاعات ملتی ہیں جو کہ ہم خود وہاں جا کر حاصل نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم میں شامل ارکان بہت بہادر ہیں اور غزہ میں ہونے والی تباہی اور مایوسی کی حقیقی تصویر بھیجتے ہیں۔‘
اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک اسرائیلی حکام نے غیرملکی صحافیوں کو غزہ میں نہیں آنے دیا، جبکہ بہت کم تعداد میں ہونے والے دورے بھی سخت فوجی پہرے میں کرائے گئے۔
دور سے جنگ کو کور کرنے کی مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے رابرٹسن نے ایک ایسے چھوٹے بچے کا حوالہ دیا جو کہ بھوک سے مر گیا تھا۔
ان کے مطابق ’میں اسرائیل میں تھا اور بھوک سے مرنے والے بچے کی رپورٹ دے رہا تھا۔ اسرائیل بھوک سے بچے کی ہلاکت کے علاوہ غزہ سے آنے والے بیانیے سے اتفاق نہیں رکھتا اور اس کو حماس کی جانب سے کیا جانے والا پروپیگنڈا قرار دیتا ہے۔‘
اسرائیلی حملوں سے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوے کہا تھا کہ ’تصاویر کو دیکھنا اور پھر سٹوری بنانا جذباتی طور پر بہت مشکل ہے اور آپ یہ تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ غزہ کے اندر لوگوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔‘
اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ عام شہری تھے جبکہ 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا تھا۔
غزہ کے شعبہ صحت کا کہنا ہے کہ حملے کے جواب میں شروع کیے گئے اسرائیلی فوجی آپریشن میں 68 ہزار 500 سے زائد افراد غزہ میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری شامل تھے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور اقوام متحدہ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھوک کو منظم انداز میں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اسی مقصد کے لیے امدادی اور خوراک کے سامان پر بندشیں لگاتا ہے۔
بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ ’قحط اور وسیع پیمانے پر غذائی قلت ایسی ہی پالیسیوں کے براہ راست نتائج ہیں۔‘
فسلطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے 400 سے زائد افراد بھوک کی وجہ سے جان سے گئے جبکہ 151 بچے بھی غذائی قلت کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں رواں برس ہوئیں۔
10 اکتوبر کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد بھی غزہ صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
نک رابرٹسن کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ خطرہ مقامی صحافیوں کو ہوتا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
ستمبر میں اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی آئرین خان نے غزہ جنگ کو ’صحافیوں کے لیے مہلک ترین‘ قرار دیا تھا۔
سراجیوو، کابل اور دوسرے مقامات سے رپورٹنگ کا تجربہ رکھنے والے نک رابرٹسن نے بھی اس امر سے اتفاق کیا کہ غزہ صحافیوں کے خطرناک ترین علاقہ ہے اور وہاں انہوں نے پابندیوں سے بھرا ماحول بھی دیکھا، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جنگ کے مقام پر سب سے زیادہ خطرات کا سامنا مقامی صحافیوں کو رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے بڑی قیمت مقامی صحافیوں کو ادا کرنا پڑتی ہے اور ہم دل کی گہرائی سے ان کا احترام کرتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے بعد سے ستمبر کے وسط تک 252 فلسطینی صحافی مارے گئے۔ اسی طرح ایک اور ویب سائٹ شیرین پیس جس کا نام الجزیرہ کی مقتول صحافی شیرین ابو اکلیح کے نام پر رکھا گیا، کا کہنا ہے کہ مرنے والے صحافیوں کی تعداد 270 سے زیادہ ہے۔
انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق صحافیوں کو شہری تحفظ حاصل ہوتا ہے تاوقتیکہ وہ جنگ میں براہ حصہ نہ لیں۔
تاہم اسرائیل پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے غزہ میں جان بوجھ کر صحافیوں کو نشانہ بنایا۔
صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والے اداروں، اقوام متحدہ اور میڈیا کے بڑے اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر صحافیوں پر حملے کیے۔
اکتوبر 2023 اور جنوری 2025 کے درمیان رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز نے بین الاقوامی فوجی عدالت میں پانچ شکایات درج کرائی تھیں، جن میں ثبوت فراہم کیے گئے تھے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں پانچ صحافیوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔
اگست میں غزہ شہر میں صحافیوں کے ایک خیمے کو نشانہ بنایا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
دوسری جانب اسرائیل ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حماس کے خلاف کارروائیوں کے دوران ہلاکتیں ہوئیں یا پھر اس کی وجہ انفرادی طور پر عسکری گروپ کے ساتھ وابستگی بنا۔
جب نک رابرٹسن سے پوچھا گیا کہ اسرائیل نے صحافیوں کی زندگیوں کو نظرانداز کیا اور کیا اس کو جواب دہ ہونا چاہیے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’الزامات کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔‘
ان کے بقول ’اسرائیل کی جانب سے کچھ مارے گئے صحافیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ حماس سے تعلق رکھتے تھے تاہم کسی عوامی فورم پر اس کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے اور نہ معاملہ تحقیقات کے لیے پیش کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور میرے جیسا صحافی اس میں شامل ہونا چاہے گا اور اس کے لیے وہاں جا کر لوگوں سے بات کرنا ہو گی۔ اسرائیل کے الزامات کو درست یا غلط ثابت کرنا مشکل ہے۔‘
اگست میں غزہ شہر میں صحافیوں کے ایک خیمے کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں سات صحافی ہلاک ہوئے جس کی اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا بھر میں میڈیا کے اداروں نے مذمت کی تھی۔