حق مہر اب وعدہ نہیں، بیوی کی قانونی ملکیت، پاکستان میں نئے خاندانی قوانین کی تجویز
حق مہر اب وعدہ نہیں، بیوی کی قانونی ملکیت، پاکستان میں نئے خاندانی قوانین کی تجویز
پیر 27 اکتوبر 2025 15:09
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
فی الحال مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی دفعہ 9 بیوی کو شوہر سے نفقہ حاصل کرنے کا حق دیتی ہے (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
پاکستان کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961، ویسٹ پاکستان فیملی کورٹس ایکٹ 1964 اور جہیز و برائڈل گفٹس (ریسٹریکشن) ایکٹ 1976 میں وسیع ترامیم تجویز کی ہیں۔
نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن نے ان مجوزہ ترامیم کی توثیق کی ہے۔
ان ترامیم کا مقصد خواتین کے مالی تحفظ، نکاح کے عمل میں شفافیت اور پرانے قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
تجویز کردہ ترامیم کے مطابق اگر حق مہر میں جائیداد شامل ہو تو وہ بیوی کی ملکیت تصور کی جائے گی۔ شوہر یا کوئی تیسرا فریق بیوی کی تحریری رضامندی کے بغیر اس جائیداد کو فروخت، رہن یا کسی اور طریقے سے استعمال نہیں کر سکے گا۔
یہ شرط اس وقت بھی لاگو ہو گی جب جائیداد شوہر کے والدین یا کسی اور نے دی ہو۔ نکاح رجسٹرار کو نکاح نامے کی ایک کاپی متعلقہ پراپرٹی رجسٹریشن اتھارٹی کو بھیجنا ہو گی تاکہ قانونی ریکارڈ محفوظ رہے۔
یہ ترامیم حق مہر کو ایک محض وعدے سے بڑھا کر فوری اور محفوظ ملکیت میں تبدیل کرتی ہیں جو بیوی کو مالیاتی تحفظ اور قانونی کنٹرول فراہم کرتی ہیں۔
نفقے میں مہنگائی کے مطابق سالانہ اضافہ
فی الحال مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی دفعہ 9 بیوی کو شوہر سے نفقہ حاصل کرنے کا حق دیتی ہے لیکن اس میں وقت کے ساتھ رقم میں اضافے کا کوئی ذکر نہیں۔
تجویز کردہ ترمیم کے تحت ثالثی کونسل اور فیملی کورٹس کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ نفقہ کی رقم میں سالانہ اضافہ کریں تاکہ مہنگائی کے اثرات سے بچا جا سکے۔ اس ترمیم سے خواتین اور بچوں کو مالی مشکلات سے نکالنے میں مدد ملے گی۔
نکاح رجسٹریشن میں شفافیت اور قانونی آگاہی
نکاح کے رجسٹریشن کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ نکاح رجسٹرار یا نکاح پڑھانے والا شخص دلہن اور دلہا کو نکاح نامے کی تمام تفصیلات ان کی مادری زبان میں بلند آواز سے سنائے۔ اس سے دونوں فریق خاص طور پر دلہن، نکاح کے حقوق و فرائض سے مکمل آگاہ ہو سکیں گے۔
رجسٹرار کی غفلت یا دھوکہ دہی پر سزا کو ایک ماہ قید سے بڑھا کر چھ ماہ اور جرمانہ 200 روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے تجویز کیا گیا ہے۔
ثالثی کونسل اور فیملی کورٹس کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ نفقہ کی رقم میں سالانہ اضافہ کریں (فائل فوٹو: فری پِک)
نکاح نامہ اب پانچ کاپیوں میں تیار کیا جائے گا، جن میں سے ایک فیملی جج کے پاس محفوظ رہے گی۔ نئے فارم میں فنگر پرنٹس اور جہیز کی فہرست کے لیے مخصوص کالم شامل کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں تنازعات سے بچا جا سکے۔
جہیز و تحائف کی قانونی حد اور ثبوت کا نظام
جہیز اور برائڈل گفٹس (ریسٹریکشن) ایکٹ 1976 کی موجودہ مالیاتی حدود مہنگائی کے باعث غیر مؤثر ہو چکی ہیں۔
نئی تجاویز کے مطابق مجموعی مالیت کو ایک لاکھ روپے، انفرادی تحفے کی حد کو ایک ہزار روپے اور شادی کے اخراجات کو 50 ہزار روپے تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
اہم ترمیم یہ ہے کہ جہیز اور تحائف کی فہرست جب نکاح نامے کے ساتھ منسلک کی جائے گی تو اسے قانونی ثبوت تصور کیا جائے گا۔
اس سے خواتین کو اپنے اثاثے واپس لینے کے لیے ایک مضبوط قانونی بنیاد فراہم ہو گی اور شوہر یا اس کے خاندان کو ان اشیاء کے وجود پر تنازع پیدا کرنے سے روکا جا سکے گا۔