Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹامپ پیپر کے لیے رجسٹرڈ سم لازمی، اوورسیز کے لیے نیا مسئلہ؟

اب او ٹی پی کی کامیاب تصدیق کے بعد ہی سٹامپ پیپر جاری کیا جائے گا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جائیداد کی خرید و فروخت اور منتقلی کے لیے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی (پی ایل آر اے) نے سٹامپ پیپرز کے اجرا کے لیے سم کارڈ کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دے دیا ہے جس کے بعد لوگوں کو مشکل پیش آرہی ہے۔ 
اس نئے طریقہ کار کے باعث صوبہ بھر میں جائیداد کی خرید و فروخت کے معاملات متاثر ہو رہے ہیں، خاص طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے پاس پاکستان میں فعال سم کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا ڈیجیٹل سٹامپ پیپر جاری نہیں کروا پا رہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ نئی پالیسی جعل سازی اور فراڈ کو روکنے کے لیے متعارف کرائی گئی ہے مگر اس کے فوری اثرات اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں کی منتقلی اور دیگر قانونی کارروائیوں پر پڑ رہے ہیں۔ 
نیا طریقہ کار: جعل سازی روکنے کی کوشش؟
21 اکتوبر کو پی ایل آر اے نے ای سٹامپ پیپر کے اجرا کا بالکل نیا نظام متعارف کرایا ہے۔ اب سٹامپ پیپر خریدنے والے شخص کے نام پر رجسٹرڈ پاکستانی موبائل سم کارڈ ہونا لازمی ہے۔ 
درخواست دہندہ کو سب سے پہلے اپنی سم پر او ٹی پی (ون ٹائم پاسورڈ) حاصل کرنا ہوگا جو اسے سٹامپ وینڈر کو فراہم کرنا ہوگا۔ صرف او ٹی پی کی کامیاب تصدیق کے بعد ہی سٹامپ پیپر جاری کیا جائے گا۔ 
اس کے علاوہ ہر درخواست کے ساتھ 300 روپے کا حلف نامہ بھی لازمی ہے اور مستقبل میں بائیومیٹرک تصدیق کو بھی شامل کرنے کی تجویز زیرِغور ہے۔ 
پی ایل آر اے حکام کے مطابق یہ اقدام جائیداد کی خرید و فروخت میں فراڈ اور جعل سازی کو روکنے کے لیے اُٹھایا گیا ہے کیونکہ پہلے لوگ جعلی شناختی دستاویزات سے سٹامپ پیپر حاصل کر لیتے تھے، تاہم اب اس نئے نظام کی وجہ سے روزانہ ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ 

حکام کا کہنا ہے کہ ’نئی پالیسی جعل سازی اور فراڈ کو روکنے کے لیے متعارف کرائی گئی ہے‘ (فائل فوٹو: پی ایل آر اے)

سم کارڈ کی شرط سے پہلے کا طریقۂ کار کیا تھا؟
سم کارڈ کی لازمی شرط سے قبل ای سٹامپ پیپر کا اجرا نسبتاً سادہ تھا۔ درخواست دہندہ کو اپنا قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) پیش کرنا ہوتا تھا جس کے بعد آن لائن تصدیق ہوتی تھی۔
اس کے بعد چالان فارم نمبر 32 اے تیار کیا جاتا جو درخواست دہندہ اور سٹامپ وینڈر (فروخت کنندہ) کی طرف سے دستخط کیا جاتا۔ 
اس عمل میں موبائل نمبر کی رجسٹریشن تو درکار ہوتی تھی مگر او ٹی پی (ون ٹائم پاس ورڈ) کی تصدیق لازمی نہیں تھی۔ 
درخواست دہندہ براہِ راست سٹامپ وینڈر کے پاس جا کر سی این آئی سی کی بنیاد پر سٹامپ پیپر حاصل کر لیتا اور اس میں تاخیر یا پیچیدگی کم ہوتی تھی۔
یہ نظام مارچ 2025 تک چلتا رہا جب کہ ستمبر 2025 میں ابتدائی طور پر موبائل رجسٹریشن لازمی قرار دے دی گئی اور پھر اکتوبر میں سم کارڈ پر او ٹی پی کی پابندی عائد کر دی گئی۔
یاد رہے کہ اس تبدیلی سے قبل بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنے وکلا یا رشتہ داروں کے ذریعے اپنی غیر موجودگی میں بھی سٹامپ پیپر حاصل کر لیتے تھے۔ 

نئی پالیسی کے تحت اب سٹامپ پیپر خریدنے والے شخص کے نام پر رجسٹرڈ پاکستانی موبائل سم ہونا لازمی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کا پس منظر
پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی (پی ایل آر اے) کا قیام 2017 میں پنجاب حکومت کے لینڈ ریکارڈ اتھارٹی ایکٹ کے تحت عمل میں آیا تھا۔ یہ ادارہ بورڈ آف ریوینیو، حکومتِ پنجاب کے زیرِانتظام کام کرتا ہے۔
اس ادارے کا بنیادی مقصد زمین کے ریکارڈ کو جدید ٹیکنالوجی سے اپ گریڈ کرنا، شہریوں کو محفوظ اور تیز رفتار سروسز فراہم کرنا ہے۔
پی ایل آر اے کی ذمہ داریوں میں زمین کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن، انٹری آف میوٹیشن (انتقال نامہ)، فردِ ملکیات کا اجرا، جائیداد کی رجسٹریشن، سٹامپ ڈیوٹی کی وصولی، ای سٹیمپنگ سسٹم اور دیگر متعلقہ خدمات شامل ہیں۔ 
اس ادارے نے گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران لاکھوں افراد کو آن لائن سہولیات فراہم کی ہیں جس سے روایتی کاغذی کارروائیوں میں کمی آئی ہے، تاہم حالیہ تبدیلیوں نے کچھ شعبوں میں نئے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں پر اثرات
یہ نئی پالیسی اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سب سے بڑا امتحان بن گئی ہے جو ملک کی معیشت میں ترسیلاتِ زر کے ذریعے اربوں ڈالر بھیجتے ہیں اور جائیداد کی منتقلی اُن کی بچت کا اہم ذریعہ ہے۔ 

فعال سم کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں کو جائیداد کی خرید و فروخت میں مشکل کا سامنا ہے (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)  

بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے پاس پاکستان میں فعال سم کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ او ٹی پی حاصل نہیں نہیں کر پا رہے جس سے انہیں جائیداد کی خرید و فروخت، وراثت کی تقسیم یا دیگر قانونی دستاویزات کے لیے تاخیر کا سامنا ہے۔ 
لندن میں مقیم ایک پاکستانی شہری رانا جہانزیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے ساہیوال میں کچھ جائیداد خریدی تھی جس کو اب میں فروخت کرنا چاہ رہا تھا۔‘
’مجھے کل وکیل نے بتایا ہے کہ سٹامپ پیپر کا اجرا میرے نام پر ہونا ہے مگر اب اس کے لیے او ٹی پی فون پر آئے گا جو میرے نام پر رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے پاس ابھی بھی اپنی سم موجود ہے لیکن وہ یہاں چلتی نہیں ہے۔ آتے ہوئے میں نے اس کی رومنگ کروائی تھی لیکن اس کے بعد مجھے یہاں اس کی ضرورت نہیں تھی اس لیے بند ہو گئی۔‘
رانا جہانزیب کا کہنا ہے کہ ’اب میں کیا کروں؟ انہیں چاہیے کہ پالیسیاں ضرور بنائیں لیکن اوورسیز پاکستانیوں کی مشکلات کو بھی ذہن میں رکھا کریں۔‘
اسی طرح ایک اور شہری سیف اللہ جو پولینڈ میں رہتے ہیں انہیں بھی اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ رواں ہفتے میں نے کچھ سرمایہ کاری کرنے کا پلان بنایا تھا لیکن یہ نیا مسئلہ سامنے آگیا۔‘

’اگر مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو یہ پالیسی اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کو متاثر کرے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’پیر کو میرے وکیل نے بتایا کہ ابھی ایک مسئلہ آیا ہوا ہے، ڈیجیٹلائزیشن کے چکر میں سٹامپ پیپر کے اجرا کے لیے سم کارڈ نام پر ہونا لازمی ہے کیونکہ کوڈ اسی پر آئے گا اور بس ابھی اس کے آگے کچھ نہیں پتا۔‘ 
ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اوورسیز پاکستانی اس وقت جائیداد کی خرید و فروخت کے معاملات میں مسائل کا شکار ہو گئے ہیں جس سے اُن کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔ 
رواں اگست میں پی ایل آر اے نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے خصوصی رہنما خطوط جاری کیے تھے جن میں آن لائن رجسٹریشن اور وکالت ناموں کی سہولت شامل تھی۔
تاہم اب سم کارڈ کی نئی شرط نے انہیں بے اثر کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگر فوری حل نہ نکالا گیا تو یہ پالیسی اوورسیز پاکستانیوں کی واپسی اور سرمایہ کاری کو متاثر کرے گی۔‘
دوسری طرف پی ایل آر اے حکام کا کہنا ہے کہ سسٹم کو آٹومیشن کی طرف لا رہے ہیں اور اسے مضبوط کر رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے شکایات سامنے آئی ہیں جن کے ٹھوس حل کے لیے بہت جلد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

شیئر: