پاکستان کی حکومت کے لیے ترسیلات زر قومی خزانے کے استحکام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو قانونی چینلز کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجنے پر قائل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اس مقصد کے لیے ہر حکومت ترسیلات زر بھیجنے والے پاکستانیوں کو کئی مراعات سے نوازتی ہے۔ یہ مراعات انفرادی اور اجتماعی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کو دی جاتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ مالی سال 2025 میں ترسیلات زر پر دی جانے والی مراعات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کےلیے مفت کورسز شروع کرنے کا اعلانNode ID: 894134
سٹیٹ بینک کے مطابق ترسیلات زر پر دی جانے والی مراعات کے اخراجات مالی سال 2025 میں غیرمعمولی طور پر 70 فیصد بڑھ کر 124.14 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اضافہ اس وقت سامنے آیا جب ملک میں آنے والی ترسیلات زر میں 27 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا اور وہ 38.3 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔
اس پیش رفت سے پاکستان دنیا کا پانچواں اور جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک بنا جو سب سے زیادہ ترسیلات وصول کرتا ہے۔
ترجمان وزارت خزانہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ترسیلات زر میں اس نمایاں اضافے کے باوجود حکومت کو ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ان پر دی جانے والی مراعات کی لاگت میں اضافہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ اعلٰی سطح کے حکومتی فورمز تک پہنچ گیا ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے قومی خزانے پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لیے پاکستان ریمیٹینس انیشی ایٹو کے تحت دیے جانے والے کیش انعامات میں رد و بدل کی منظوری دی ہے تاکہ یہ نظام پائیدار بنیادوں پر چل سکے۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اخراجات میں 70 فیصد اضافے کی ایک اہم وجہ ’ٹرانسفر ٹو کیش انسینٹو سکیم‘ کے تحت دی جانے والی بڑھتی ہوئی مراعات تھیں۔ یہ سکیم خاص طور پر اس وقت متعارف کرائی گئی جب مالی سال 2023 اور 2024 کے ابتدائی مہینوں میں ترسیلات زر میں کمی کا رجحان دیکھا گیا تھا۔ اس پالیسی کا مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو باضابطہ ذرائع کے ذریعے رقوم بھیجنے پر آمادہ کرنا تھا۔

سٹیٹ بینک کے مطابق سعودی عرب کا کوریڈور اس وقت پاکستان کے لیے ترسیلات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو مجموعی ترسیلات کا تقریباً 25 فیصد ہے۔ اس کوریڈور کی بحالی نے نہ صرف ترسیلات میں اضافہ کیا بلکہ اس کے نتیجے میں مراعات پر اخراجات بھی بڑھے۔
حکومت کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کو کئی اقسام کی مراعات دی جاتی رہی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم قانونی ذرائع سے بھیجیں۔ ان مراعات میں ہر ترسیل پر نقد انعام دینا، خصوصی لاٹری سکیموں میں شرکت کا موقع فراہم کرنا، قومی بچت کی سکیموں اور سرمایہ کاری بانڈز میں ترجیحی رسائی دینا، اور ایئرپورٹس پر فاسٹ ٹریک امیگریشن سہولت فراہم کرنا شامل ہیں۔
کئی مواقع پر اوورسیز پاکستانیوں کے خاندانوں کو صحت کارڈ یا تعلیمی وظیفوں کی شکل میں اضافی فوائد بھی دیے گئے۔
تاہم بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے ای سی سی نے حال ہی میں اس ڈھانچے میں اصلاحات کی ہیں۔ اب ہر ترسیل پر دی جانے والی انعامی رقم کو یکساں کر کے 20 ریال مقرر کر دیا گیا ہے، جو اس سے قبل 20 سے 30 ریال کی حد میں دی جاتی تھی۔ اسی طرح کم از کم ترسیل کی لازمی حد 100 ڈالر سے بڑھا کر 200 ڈالر کر دی گئی ہے تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کم ہو سکے اور حقیقی بڑی ترسیلات بھیجنے والوں کو زیادہ فائدہ پہنچے۔
اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2009 میں پاکستان کو 7.8 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئی تھیں جو اب بڑھ کر 38.3 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی میں یہ 92 فیصد اضافہ بنتا ہے۔ ترسیلات زر اب ملک کے لیے زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو برآمدات سے بھی زیادہ ہے۔

پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو کے قیام کے بعد باضابطہ ذرائع سے ترسیلات کے نیٹ ورک کو تیزی سے وسعت ملی۔ مالی سال 2009 میں صرف 25 مالیاتی ادارے اس پروگرام کا حصہ تھے جو 2024 تک بڑھ کر 50 سے زیادہ ہو گئے۔ ان میں روایتی بینک، اسلامی بینک، مائیکرو فنانس بینک اور ایکسچینج کمپنیاں شامل ہیں جبکہ الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز بھی اس سہولت میں شریک ہیں۔
اسی طرح بین الاقوامی اداروں کی تعداد جو پاکستان کو ترسیلات زر کی سہولت فراہم کرتے ہیں، سنہ 2009 میں 45 تھی جو آج تقریباً 400 تک جا پہنچی ہے، صرف مالی سال 2024 میں ہی 33 نئے ادارے اس فہرست میں شامل ہوئے۔
یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ حکومت ترسیلات زر کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی مالیاتی دباؤ اور مراعات پر بڑھتے ہوئے اخراجات ایک نیا چیلنج بنتے جا رہے ہیں جسے پالیسی اصلاحات کے ذریعے متوازن رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔