Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دبئی میں پاکستانی قونصل جنرل کا پیغام: ورکرز کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟

دبئی میں قائم پاکستانی قونصلیٹ نے ایک اہم ویڈیو جاری کی ہے جس کا مقصد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں کو ان کے روزگار کے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ہے۔
یہ ویڈیو خاص طور پر ان افراد کے لیے ہے جو نوکری کی تلاش میں یو اے ای آتے ہیں یا پہلے سے یہاں ملازمت کر رہے ہیں۔
پاکستانی قونصلیٹ کا کہنا ہے کہ اکثر پاکستانی مزدور لاعلمی کی وجہ سے ایسے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جو نہ صرف ان کی نوکری بلکہ مستقبل کے روزگار پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس ویڈیو میں عام زندگی سے متعلق وہ تمام نکات شامل کیے گئے ہیں جنہیں جاننا ہر ملازم کے لیے ضروری ہے، جیسے تنخواہ اور اوور ٹائم کی ادائیگی، چھٹی کے ضوابط، گریجویٹی یعنی ملازمت کے بعد ملنے والے مالی حقوق، ملازمت چھوڑنے یا کمپنی تبدیل کرنے کا درست طریقہ اور پروبیشن پیریڈ (آزمائشی مدت) کے قواعد شامل ہیں۔
ورک پرمٹ کے بغیر نوکری شروع نہ کریں
قونصلیٹ نے زور دیا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی ملازمت کا آغاز صرف اس وقت کرے جب اس کا ورک پرمٹ جاری ہو جائے۔ ورک پرمٹ کے بغیر نوکری شروع کرنا قانونی طور پر خطرناک ہو سکتا ہے اور مستقبل میں سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ورک پرمٹ اور ویزے کے تمام اخراجات آجر (اسپانسر) کے ذمہ ہیں، یہ خرچ ملازم کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
کنٹریکٹ کی اہمیت
یو اے ای کے قوانین کے مطابق معیاری لیبر کنٹریکٹ عام طور پر دو سال کا ہوتا ہے، جس پر آجر اور ملازم دونوں کے دستخط ضروری ہیں۔ قونصلیٹ نے پاکستانیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے کنٹریکٹ کی ایک کاپی محفوظ رکھیں تاکہ کسی تنازعے کی صورت میں یہ ان کے کام آ سکے۔
پروبیشن پیریڈ کے اصول
یو اے ای میں ملازمین کے لیے پروبیشن پیریڈ  (آزمائشی مدت) زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی آجر پروبیشن کے دوران ملازمت ختم کرنا چاہے تو اسے ملازم کو کم از کم 14 دن پہلے اطلاع دینا لازمی ہے۔ دوسری طرف اگر ملازم کمپنی چھوڑ کر دوسری جگہ جانا چاہے تو اسے 30 دن کا نوٹس دینا پڑے گا۔
یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر ملازم بغیر اطلاع دیے پروبیشن پیریڈ کے دوران ملازمت چھوڑ دے تو اس پر ایک سال کے لیے یو اے ای میں روزگار حاصل کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً 17 لاکھ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

خواتین کے لیے خصوصی حقوق
قونصلیٹ نے ویڈیو میں یہ بھی بتایا کہ یو اے ای کے قوانین کے مطابق تمام لوگ برابر ہیں، چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، قومیت، مذہب یا جنس سے تعلق رکھتے ہوں۔ مرد اور خواتین کو یکساں تنخواہ ملنے کا حق ہے اور کسی خاتون کو حمل کی وجہ سے ملازمت سے نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ بات پاکستانی خواتین کارکنوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے جو گھریلو یا دیگر شعبوں میں ملازمت کر رہی ہیں۔
پاکستانی قونصل جنرل کا پیغام
دبئی میں پاکستان کے قونصل جنرل حسین محمد نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ  ’ہم بطور اوورسیز پاکستانی یہاں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو پاکستانی کارکنوں کے لیے بنائی گئی ہے تاکہ وہ مقامی قوانین سے آگاہ ہوں اور کسی قانونی مسئلے سے دوچار نہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ ویڈیو پاکستانی کمیونٹی کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔‘
متحدہ عرب امارات میں پاکستانی کمیونٹی
ایک اندازے کے مطابق متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً 17 لاکھ ہے، جو وہاں بڑی غیرملکی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی افراد تعمیرات، ٹرانسپورٹ، خدمات، تجارت اور مختلف دیگر شعبوں میں کام کر کے نہ صرف اپنی زندگی سنوار رہے ہیں بلکہ اپنے ملک کو زرمبادلہ بھیج کر معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستانی قونصلیٹ کی یہ کاوش دراصل ایک رہنمائی ہے تاکہ ہر مزدور اور پروفیشنل اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھ سکے (فوٹو: اے ایف پی)

ویڈیو کا مقصد
اس ویڈیو کا مقصد پاکستانی کارکنوں کو آگاہ کرنا ہے کہ وہ یو اے ای کے لیبر لاز پر عمل کریں، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ لاعلمی کے باعث اکثر لوگ غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، مثلاً نوکری ورک پرمٹ کے بغیر شروع کر دینا یا پروبیشن پیریڈ کے دوران بغیر اطلاع کے کمپنی چھوڑ دینا۔ اس طرح کے اقدامات ان کے لیے قانونی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔
عوامی دلچسپی کیوں؟
یہ خبر عام پاکستانیوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے کیونکہ لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی کے لیے یو اے ای میں کام کرنے والے افراد پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر یہ مزدور لاعلمی کی وجہ سے کسی قانونی مشکل میں پھنس جائیں تو نہ صرف ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کے اہلِ خانہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔
پاکستانی قونصلیٹ کی یہ کاوش دراصل ایک رہنمائی ہے تاکہ ہر مزدور اور پروفیشنل اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھ سکے۔ یہ اقدام یقینی طور پر پاکستانی کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا اور ان کے روزگار کو محفوظ بنانے میں مدد دے گا۔

 

شیئر: