1920 کی دہائی میں جب برطانوی راج میں انڈین سینما اپنے پیروں پر ابھی چلنا سیکھ رہا تھا اور اس کے دودھ کے دانت بھی نہیں آئے تھے کہ پشاور سے ایک طویل قامت اور چوڑے کندھے والا نوجوان اپنی آنکھوں میں خواب سجائے اور دل میں اداکاری کی آگ لیے بمبئی آن پہنچا۔
فلم نے ابھی بولنا نہیں سیکھا تھا کہ اس نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے شروع کر دیے لیکن اس کا سفر کچھ آسان بھی نہیں تھا۔
آج ہی کے دن یعنی تین نومبر 1906 کو لگ بھگ سوا سو سال قبل لائل پور (اب فیصل آباد) کے سمندری میں پیدا ہونے والے پرتھوی راج نے لاہور میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔
مزید پڑھیں
-
’آوارہ‘ سے بالی وڈ کے عظیم ترین شومین تک، راج کپور کے 100 سالNode ID: 882950
جہاں ان کے ہم جماعت برطانوی ہندوستان میں قانون کی شقیں یاد کر رہے تھے وہ تھیٹر میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے مکالمے یاد کر رہا تھا کیونکہ ان کا دل سٹیج پر پرفارم کرنے کے لیے دھڑکتا تھا۔
تھیٹر سے ان کے لگاؤ کے بہت سارے قصے ہیں۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ پرتھوی ناتھ جو بعد میں پرتھوی راج بنے فلموں میں قسمت آزمائی کے لیے اردشیر ایرانی کی فلم کمپنی امپیریل کے دفتر کے باہر کئی دنوں تک چکر لگاتے رہے اور اس کے کھلنے کا انتظار کرتے رہے۔ ایک دن امپیریل کے چوکیدار کو ان پر ترس آ گیا اور انہوں نے کمپنی میں جب قدم رکھا تو تاریخ رقم کر دی۔
اس وقت فلم ’دو دھاری تلوار‘ کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس میں انہیں ایک کردار مل گیا۔ یہ فلم 1929 میں ریلیز ہوئی جہاں سے ایک ایسا فن کار ابھرا جس نے اردشیر ایرانی کی بنائی پہلی گویا فلم ’عالم آرا‘ بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔
پرتھوی راج کپور اپنے قد و قامت، خدو خال اور اپنی پاٹ دار آواز کی وجہ سے تھیٹر میں کہیں بھی ہوں نمایاں نظر آتے تھے۔ اس وقت کے لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر وہ بھرے تھیٹر کی آخری قطار میں کھڑے ہوں تو بھی بغیر مائکروفون کے ان کی آواز دوسری طرف قطار میں بیٹھے یا کھڑے آخری آدمی تک صاف صاف پہنچتی تھی۔
اگرچہ ان کی شہرت پہلے 1941 میں آنے والی فلم ’سکندر‘ اور پھر 1960 میں آنے والی فلم ’مغل اعظم‘ کی وجہ سے انڈین فلم کی تاریخ میں میل کے پتھر کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ان کا دل فلموں سے زیادہ تھیٹر کے لیے دھڑکتا تھا۔ انہوں نے ’سینما گرل‘، اور ’شیر عرب‘ جیسی فلموں میں اداکاری کی لیکن دراصل وہ تھیٹر کے شیر تھے۔

پرتھوی راج تھیٹر کا دھاڑتا ہوا شیر
پرتھوی راج نے پہلی گویا فلم کی آمد سے قبل گونگی فلموں میں اپنی اداکاری کا جوہر دکھایا تھا لیکن ان کی پہچان جو ان کی آواز تھی وہ بے آواز فلمیں ان کے اس جوہر سے محروم رہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فلموں میں ہونے کے باوجود ان کا دل ہمیشہ سٹیج کے لیے تڑپتا تھا۔ چنانچہ وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن یعنی اپٹا کے بانی ارکان میں سے ایک بنے۔
تھیٹر کے معاملے میں وہ وہیں تک نہیں رکے بلکہ 1944 میں انہوں نے ’پرتھوی تھیٹر‘ کی بنیاد رکھی اور ایک ایسی راہ بنائی جس کی ان سے قبل ہندوستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے اپنے تھیٹر گروپ کے ساتھ ٹرین کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا، شہروں اور دیہاتوں میں پرفارم کیا اور ان کے سامنے پرفارم کیا جنہوں نے پہلے کبھی لائیو تھیٹر نہیں دیکھا تھا۔
انہوں نے پرتھوی تھیٹر کے ذریعے 16 سال کے عرصے میں کم و بیش ڈھائی ہزار شوز کیے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں انہوں نے لیڈ کردار ادا کیا۔ ان کے ڈراموں میں ایسی کہانیاں پیش کی جاتی تھیں جو لوگوں کو ملک کے لیے جنگ آزادی میں شرکت کی دعوت دیتی تھیں اور ان میں جذبۂ حب الوطنی پیدا کرتی تھیں۔
ایک بار کی بات ہے جب وہ اپنے تھیٹر گروپ کے ساتھ مدراس (اب چنئی) کے سفر پر تھے۔ وہ مدراس میں جو ڈرامہ پیش کرنے جا رہے تھے اس کے کاسٹیوم یعنی لباس لانے والا ٹرک راستے میں خراب ہو گیا۔

پرتھوی راج نے شو کو منسوخ کرنے کے بجائے اس میں جدت طبع کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبدیلی کی اور اداکاروں کو سفید دھوتی اور پگڑیوں میں سٹیج پر پیش کیا اور ایک طرح سے ایک حادثے کو موقع سمجھ کر اس کا استعمال کیا۔
ناظرین نے ان کے اس شو کو پسند کیا – بعض کے خیال سے اس جدت طرازی نے ڈرامے کو مزید طاقتور بنا دیا۔ اس کے بعد سے انہوں نے تھیٹر کے بارے میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’تھیٹر کو بہت شو شا کی ضرورت نہیں، اسے سچائی کی ضرورت ہے۔‘
چنانچہ اپنے کردار کے ساتھ ان کی سچائی فلم ’مغل اعظم‘ میں نظر آتی ہے جب انہوں نے نمائشی زرہ بکتر اور جنگی ساز و سامان کے بجائے اصلی زرہ بکتر پہنا اور جنگی سازوسامان اُٹھایا۔ انہوں نے اکبر کے کردار کے لیے اپنے وزن میں اضافہ کیا اور جب شیخ سلیم چشتی کی درگاہ پر اولاد کی تمنا میں پا پیادہ سفر پر نکلے تو ان کے پاؤں پر چھالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے تپتے ہوئے صحرا میں اس سین کی شوٹنگ واقعی ننگے پاؤں کی تھی۔
پرتھوی راج کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ وہ اکبر کے کردار میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ وہ اپنے گھر میں بھی اسی انداز میں اپنے بیٹوں کو پکارتے یا ان سے بات چیت کرتے گویا وہ مغل اعظم کے بعد اکبر کا پرتو بنے گھومتے رہے۔
بہرحال ان کی امپرووائیزیشن کی بہت سے کہانیوں میں سے ایک کہانی بار بار دہرائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک بار ’پٹھان‘ ڈرامے کی پرفارمنس کے دوران جس میں وہ ایک افغان قبائلی کا کردار ادا کر رہے تھے، ایک پرجوش منظر کے دوران ان کی مصنوعی تلوار دو ٹکڑے ہو گئی۔ انہوں نے کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار کیے بغیر بے ساختہ نیا مکالمہ تراش لیا اور کہا کہ ’میری تلوار بھی اپنی مادر وطن سے میری محبت کا جوش وخروش برداشت نہیں کر سکتی!‘ پورا تھیٹر تالیوں سے گونج اٹھا، اور ناظرین کو یوں لگا کہ یہ سکرپٹ کا حصہ تھا۔

پرتھوی راج کپور صرف اپنے کردار کے لیے نہیں بلکہ انڈین سینما کو پہلا خاندان دینے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں جہاں ان کے بیٹے راج کپور ’شو مین‘ بن کر چمکے تو شمی کپور بجلی بن کر کوندے اور ششی کپور نے اپنی میٹھی مسکراہٹ سے سب کا دل موہ لیا۔
ان کے بیٹے راج کپور اپنے والد کے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے کہ ’ہمارے والد نے اداکاری نہیں کی، وہ اس کردار کو جیتے تھے۔‘
وہ اپنے والد کا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ جب کپور خاندان مشکل کا شکار تھا اور اپنے گھر کا کرایہ بھی بہ مشکل برداشت کر رہا تھا تو ایک دن راج کپور نے اپنے والد سے پوچھ لیا کہ ’پاپا، جب ہمارے پاس گھر نہیں ہے تو آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟‘ پرتھوی راج نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ’میں ایک گھر سے بڑی چیز بنا رہا ہوں، آرٹ کے لیے گھر بنا رہا ہوں۔‘
کئی دہائیوں بعد جوہو میں پرتھوی تھیٹر وجود میں آیا جسے ششی کپور نے اپنے والد کی جانفشانی کی نذر کیا اور یہ فنکاروں کا ایسا گھر بنا جو آج تک لوگوں کو روشنی دکھاتا ہے۔

اِن دنوں اس تھیٹر کی دیکھ بھال ششی کپور کی بیٹی سنجنا کپور کرتی ہیں۔
پرتھوی راج کپور کی آخری بڑی فلم ’مغل اعظم‘ تھی۔ ایک انٹرویو میں دلیپ کمار نے انہیں یاد کرتے ہوئے کہا: ’جب پرتھوی راج جی نے کہا، سلیم! تو سٹوڈیو کی دیواریں کانپنے لگیں۔‘
سنہ 1972 میں بمبئی میں 66 سال کی عمر میں ان کی موت واقع ہوئی۔ لیکن فلم کی دنیا میں ان کی پاٹ دار آواز گونجتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’یاد رکھو، سٹیج ایک مقدس جگہ ہے، اسے مندر کی طرح سمجھو۔‘
انڈین حکومت نے مرنے سے قبل انہیں سنہ 1969 میں پدم بھوش ایوارڈ سے سرفراز کیا جبکہ سنہ 1971 میں انہیں گرانقدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔












