’بوبی‘، وہ فلم جس نے راج کپور کی زندگی اور انڈین سنیما کا رخ موڑ دیا
’بوبی‘، وہ فلم جس نے راج کپور کی زندگی اور انڈین سنیما کا رخ موڑ دیا
منگل 1 اکتوبر 2024 5:26
یوسف تہامی، دہلی
فلم ’بوبی‘ میں راج کپور کو اپنے بہت سے پرانے اور آزمودہ فارمولے کو چھوڑنا پڑا(فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
زیادہ تر فلمیں تاریخ میں گم ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ ایک یاد رکھی جاتی ہیں لیکن کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو دوسری فلموں کے لیے’ٹرینڈ سیٹر‘ ثابت ہوتی ہیں۔
ایسی ہی ایک فلم آج سے پورے 51 برس قبل آئی تھی۔ اس فلم کو انڈین سنیما کے ’شومین‘ کہے جانے والے اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار راج کپور نے بنایا تھا اور یہ فلم کوئی اور نہیں بلکہ ’بوبی‘ تھی جو 1973 میں ریلیز ہوئی۔
اگرچہ اس فلم کو اس زمانے کے معروف اداکار اور سپرسٹار راجیش کھنہ کے لیے لکھا گیا تھا لیکن پیسے کی تنگی کی وجہ سے راج کپور نے اس میں اپنے بیٹے رشی کپور کو کاسٹ کر دیا جس کے بارے میں رشی کپور نے کہا کہ وہ اس کردار کے لیے ڈیفالٹ طور پر منتخب کیے گئے تھے۔
یہ فلم راج کپور کے خوابوں کی فلم تھی جو انہوں نے اپنی جوانی میں اداکارہ نرگس کے روپ میں دیکھی تھی۔ چنانچہ رشی کپور نے کئی بار یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ فلم ہیرو سے زیادہ ہیروئن پر مبنی ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام ’بوبی‘ ہے۔
راج کپور نے کم بجٹ اور ’فلم میرا نام جوکر‘ کی ناکامی کے بعد قرض میں ڈوب جانے کے باوجود زیادہ تر پیسے اور قوت ہیروئن کی تلاش میں صرف کیے۔ یہاں تک کہ بوبی کے کردار کے لیے انہوں نے نیتو سنگھ کا بھی سکرین ٹیسٹ لیا تھا جنہوں نے بعد میں نہ صرف فلموں میں شہرت حاصل کی بلکہ رشی کپور کی اہلیہ بھی بنیں۔
بہرحال بوبی کے لیے 15 سالہ لڑکی ڈمپل کپاڈیا کو منتخب کیا گيا لیکن ڈمپل کپاڈیا کا کہنا ہے کہ پہلے سکرین ٹیسٹ میں انہیں تو صاف صاف منع کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ ہیرو سے بڑی نظر آتی تھیں لیکن پھر ایک بار پیسے کی کمی نے راج کپور کو مجبور کیا کہ وہ اپنے دوست چنی بھائی کپاڈیا کی بیٹی کو کاسٹ کریں۔
اس فلم میں ارونا ایرانی کے کردار کے لیے اداکارہ ریکھا سے رابطہ کیا گیا تھا جو کہ اس زمانے میں اپنا کریئر بنا رہی تھیں، لیکن ریکھا نے اسے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ بہت ہی زیادہ ضمنی کردار ہے۔
کہا جاتا ہے اس سے قبل سنہ 1970 میں راج کپور کی فلم ’میرا نام جوکر‘ آئی تھی جس میں انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی جھونک دی تھی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی جس کی وجہ سے انہیں فلم بوبی کے لیے قرض لینے پڑے یہاں تک کہ قیمتی سامنے بیچنے اور گھر رہن رکھنا پڑے تھے۔
فلم ’بوبی‘ میں راج کپور کو اپنے بہت سے پرانے اور آزمودہ فارمولے کو چھوڑنا پڑا۔ یہاں تک کہ انہوں نے شنکر جے کشن کی دی جانے والی موسیقی کو ’پرانا‘ کہہ کر لکشمی کانت پیارے لال سے رابطہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ کسی پارٹی میں راج کپور لکشمی کانت اور پیارے لال سے ملے تو انہوں نے کہا کہ وہ ایک فلم بنا رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لکشمی کانت پیارے لال اس فلم میں موسیقی دیں کیونکہ ’ہماری موسیقی پرانی ہو چکی ہے۔‘
اس فلم میں ہر سطح پر ایک نیا پن نظر آتا ہے۔
راج کپور نے نہ صرف اپنی موسیقی بدل دی بلکہ انہوں نے اپنے گیت کار بھی بدل دیے اور پہلی بار اپنی فلموں کے گیت کے لیے آنند بخشی سے رجوع کیا جبکہ اس سے قبل ان کے لیے شیلیندر اور حسرت جے پوری گیت لکھا کرتے تھے۔
فلم میں نوجوان رشی کپور کے لیے نئی آواز کی تلاش میں راج کپور نے شیلیندر سنگھ کی آواز کو متعارف کرایا جو بہت مقبول ہوئی۔
اگرچہ اس فلم سے قبل راج کپور اور سروں کی ملکہ لتا منگیشکر کے درمیان ان بن تھی لیکن لکشمی کانت پیارے لال نے ان کی رنجشیں دور کیں اور لتا نے ایک بار پھر راج کپور کی فلموں کے لیے اپنی آواز دینی شروع کی۔
بہرحال بوبی میں جس تھیم کو دکھایا گیا ہے، اگرچہ اس پر پہلے بھی فلمیں بن چکی تھیں لیکن یہ فلم میل کا پتھر ثابت ہوئی کیونکہ ایک امیر نوجوان اور ایک غریب گھر کی لڑکی کی محبت کو جس طرح پیش کیا گیا ہے وہ نہ اس سے قبل نظر آیا اور نہ ہی اس کے بعد حالانکہ اس تھیم پر درجنوں فلمیں بنیں۔
راج کپور معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپيئر کے ڈرامے رومیو جولیٹ کی طرز پر بوبی فلم کا اختتام ٹریجک کرنا چاہتے تھے لیکن فلم کر ڈسٹریبیوٹرز نے کہا کہ اگر فلم کے ہیرو ہیروئن مر جائیں گے تو ہم بھی مر جائیں۔
چنانچہ پھر خواجہ احمد عباس نے اس کا خوشگوار اختتام کیا جس میں رشی کپور کو ڈمپل کے والد پریم ناتھ بچاتے ہیں جبکہ ڈمپل یعنی بوبی کو پران بچاتے ہیں۔
اس فلم میں پران کو صرف ان کے روایتی انداز میں دکھایا گیا ہے لیکن اس فلم سے پریم ناتھ کو نئی زندگی ملتی ہے اور فلموں میں انہیں پھر سے کام ملنے لگتے ہیں۔ اس میں پریم چوپڑہ بھی ہیں جنھوں نے ولن کا کردار ادا کیا ہے اور وہ اپنے نام کے ساتھ ہی اس فلم میں آئے ہیں۔
ان کا ایک مکالمہ ہے جو بہت مشہور ہوا اور انہوں نے اسی نام سے اپنی سوانح بھی لکھی ہے۔ ’پریم نام ہے میرا، پریم چوپڑا۔‘
بوبی فلم نے سماجی اور ثقافتی طور پر جس قدر آنے والی نسل کو متاثر کیا شاید کسی دوسری فلم کو یہ افتخار حاصل نہ ہو سکا۔ اس میں بوبی نے جو پولکا ڈاٹس والے لباس پہنے وہ پورے انڈیا میں چھا گیا اور یہ آج بھی ڈمپل کپاڈیہ کے نام سے مشہور ہے۔
راج کپور نے جس طرح ڈمپل کپاڈیہ کو اس میں پیش کیا ہے اس کا عکس بعد میں ان کی فلم ستیم شوم سندرم، یا پھر رام تیری گنگا میلی ہو گئی میں نظر آتا ہے۔
اس کے بعد ایک دہائی تک نہ صرف لڑکیوں کے بلکہ لڑکوں کے نام بھی بوبی پڑنے لگے۔ میرے چچا کے ایک دوست وقار احمد فلم ’بوبی‘ کا کریز بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کس طرح ان کی ایک چچی اپنی انگلی پر کپڑے باندھ کر سبزیاں کاٹتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں بھی کسی بوبی سے کم نہیں۔
بہرحال جب 28 ستمبر کو یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ بیرون ملک بھی تہلکہ مچا دیا۔
اس کا ایک ایک گیت لوگوں کی زبان پر تھا اور 50 برس بعد بھی آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اس کے گیت ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ ، ’ہم تم اک کمرے میں بند ہوں، اور چابی کھو جائے‘ ، ’میں شاعر تو نہیں، مگر اے حسیں‘، ’مجھے کچھ کہنا ہے، مجھے بھی کچھ کہنا ہے، پہلے تم، پہلے تم‘، ’انکھیوں کو رہنے دے انکھیوں کے آس پاس‘ وغیرہ انتہائی مقبول ہوئے۔
اس فلم نے راج کپور کی فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے نہ صرف ساکھ بحال کی بلکہ اس نے ان کو نئی زندگی عطا کی اور انہیں سارے قرضوں سے نجات دلائی اور انھوں نے نئی فلموں کے ساتھ نئی بلندیاں طے کیں۔
جہاں تک ڈمپل کپاڈیہ کا سوال ہے تو اس فلم کے بعد ان کی سپرسٹار راجیش کھنہ سے شادی ہو گئی اور وہ فلموں سے ایک عرصے کے لیے دور ہو گئیں۔ رشی کپور نے اپنی سوانح 'کھلم کھلا' میں لکھا ہے کہ اس فلم سے سب سے زیادہ انہیں ہی فائدہ ہوا کیونکہ ڈمپل فلموں سے دور ہو گئیں اور سارا کریڈٹ انہوں بٹور لیا۔
کھلم کھلا میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے ایک ایوارڈ خریدا تھا جس کے بعد اس بات پر بحث ہونے لگی کہ کیا یہ ایوارڈ بوبی کے لیے تو نہیں تھا جس میں انہیں امیتابھ کی زنجیر میں اداکاری کے سامنے بہترین اداکار کا ایوراڈ دیا گیاتھا جبکہ ڈمپل کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا۔ اس کے بعد سے رشی کپور کو کبھی کسی فلم کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ نہ مل سکا۔