مارگلہ ہِلز کی تباہی کا ذمہ دار کون، کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
مارگلہ ہِلز کی تباہی کا ذمہ دار کون، کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
بدھ 5 نومبر 2025 12:21
فرحین العاص
مارگلہ ہلز کو کبھی ’خاموشی اور قدرتی حسن کا مظہر‘ کہا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے (فوٹو: وکی پیڈیا)
مارگلہ ہلز نیشنل پارک, جو ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے اور اسلام آباد و راولپنڈی کے سنگم پر پھیلا ہوا ہے آج انسانی مداخلت اور ماحولیاتی دباؤ کے باعث شدید خطرے میں ہے۔
یہ پہاڑی سلسلہ ایک وقت میں خاموشی اور قدرتی حسن کا مظہر تھا لیکن اب یہاں کے درخت، جانور، ندی نالے اور جنگلات انسانی قدموں اور سرگرمیوں کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد وائلڈ لائف حکام کے مطابق پارک کے اطراف تقریباً 20 دیہات میں 92 ہزار سے ایک لاکھ تک افراد رہائش پذیر ہیں، میں ہر گھر میں 3 سے 4 مویشی بھی شامل ہیں جو خوراک کے لیے پارک کی قدرتی نباتات پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مویشی پارک کے اندر چراگاہ کے لیے گھومتے ہیں جس سے نباتات کا نقصان اور مٹی کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔
جی آئی ایس ڈیٹا کے مطابق 2004 سے 2022 کے دوران مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیر قانونی آبادیاں 757 ایکڑ (3.06 مربع کلومیٹر) تک پہنچ چکی ہیں۔
سید پور گاؤں میں اس دوران تجاوزات میں 71 فیصد اضافہ ہوا جبکہ نورپور شاہان میں یہ اضافہ 52 فیصد تک پہنچا۔ حکام کے مطابق غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی گئی، جس کے نتیجے میں کچھ کمی واقع ہوئی تاہم ماحولیاتی دباؤ برقرار ہے۔
مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا کل رقبہ تقریباً 30,088 ایکڑ (121.76 مربع کلومیٹر) ہے۔
یہ پارک 1980 میں قائم کیا گیا اور پاکستان کے قدیم اور بڑے قومی پارکوں میں شمار ہوتا ہے۔ پارک میں مارگلہ ہلز، راول لیک اور شکرپڑیاں شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پارک میں بعض جانوروں کی بعض اقسام جیسے عام تیندوا اور انڈین پینگولن تحفظ کی کوششوں کے باوجود عالمی سطح پر خطرے سے دوچار ہیں۔ 20 سال قبل یہاں گرے گورال بھی پایا جاتا تھا لیکن اب یہ معدوم ہو چکا ہے۔
ایم ڈی ہیگلر بیلی پاکستان اور سابق رکن اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ وقارذکی کہتے ہیں کہ ’مارگلہ ہلز کے ایک تہائی علاقے وائلڈ لائف کے لیے مناسب نہیں، دوسرا تہائی درمیانی درجے میں خراب ہے اور باقی تیسرا تہائی بہترین حالت میں ہے۔ ہیوی ڈگریڈیڈ علاقے جیسے رملی اور سید پور کی بحالی میں 15 سے 20 سال لگ سکتے ہیں جبکہ درمیانی درجے کے علاقے 5 سے 10 سال میں بہتر ہو سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’انسانی مداخلت کے سبب غیر مقامی پودے، جیسے لنٹانا اور گاجر بوٹی، مقامی نباتات کی جگہ لے رہے ہیں جب مویشی مقامی پودوں کو چر جاتے ہیں تو زمین خالی ہو جاتی ہے اور یہ غیر مقامی پودے جلدی پھیل جاتے ہیں۔
مارگلہ کی پہاڑیوں پر انتہائی نایاب نسل کے جانور خطرات سے دوچار ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
لنٹانا انگریز اپنے ساتھ لے کر آئے تھے جس کا مقصد حفاظتی باڑ بنانا تھا لیکن بعد میں یہ اتنا پھیلا کہ مارگلہ ہلز کے کافی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ اور گاجر بوٹی دونوں خالی جگہ میں تیزی سے پھیل جاتے ہیں اور انہیں جانور بھی نہیں کھاتے تو یہ مزید پھیلتے رہتے ہیں۔
ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق ’مارگلہ ہلز میں اب بھی 600 سے زائد پودوں کی اقسام، چیتے، پینگولن، لنگور اور 250 سے زائد پرندے موجود ہیں لیکن موسمیاتی اور انسانی دباؤ ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ہمالیائی اوک اور چیڑ کے درخت نمی کی کمی، کیڑوں کے حملوں اور جنگلاتی آگ سے متاثر ہیں، جبکہ قدرتی چشمے خشک ہو رہے ہیں اور مٹی کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔‘
محکمہ موسمیات کے 10 سالہ اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد میں 2016 میں سالانہ بارش 1620.6 ملی میٹر تھی، جو 2024 میں 1261 ملی میٹر رہ گئی اور اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 27.7 سے بڑھ کر 29.1 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا ہے۔ شدید ہواؤں کی شرح اور جنگلات میں آگ کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
راولپنڈی کی پیر مہر علی شاہ زرعی یونیورسٹی کے محققین نے 2022 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1997 سے 2019 کے دوران مارگلہ ہلز میں زمین کے استعمال میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔
مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ لگنے کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
1997 میں گھنے جنگلات سات ہزار دو سو 62 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے تھے جبکہ بستیوں کا رقبہ 145 ہیکٹر تھا۔ 2005 تک بستیوں کا رقبہ 877 ہیکٹر بڑھ گیا اور جزوی شجرکاری کے اثرات سے جنگلات میں بھی ایک ہزار ہیکٹر کا اضافہ ہوا، لیکن آبی ذخائر میں کمی ہوئی۔
خطرے سے دو چار اہم پودے
ڈاکٹر رفیع الحق کی تحقیق کے مطابق مارگلہ ہلز کی چند اہم خطرے سے دوچار انواع درج ذیل ہیں۔
ان میں ہمالیائی اوک کو نمی کی کمی اور غیرمقامی پودوں کا سامنا ہے جبکہ چیڑ کے درخت کیڑوں کے حملوں اور جنگل میں لگنے والی آگ کا شکار ہیں، اسی طرح ادویاتی جڑی بوٹیاں حد سے زیادہ چناؤ اور موسمی خشکی کے باعث خطرے سے دوچار ہیں جبکہ برگد اور انجیر کو پانی کی قلت اور جرثومہ کش مواد کی کمی کا سامنا ہے۔
خطرات سے دوچار جانور اور کیڑے
ایسے جانوروں میں ایشیائی تیندوا، انڈین پینگولن، گرے لنگور، مصری گدھ، ہمالیائی مونال، نالہ فریگ، ایمفیبین، مانیٹر چھپکلیاں اور تتلیاں شامل ہیں۔
شہری پھیلاؤ اور غیر قانونی سرگرمیوں نے ماحولیاتی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ رہائشی منصوبے اور سڑکوں نے جنگلی حیات کے قدرتی راستے کاٹ دیے۔ اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور پلاسٹک، گندے پانی اور نائٹروجن آلودگی نے زمینی و آبی نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الحق نے مارگلہ ہلز کے لیے جدید حفاظتی اقدامات چند اقدامات تجویز کرتے ہیں جن میں IoT سینسر نیٹ ورک کے ذریعے 50 اسٹیشنز پر مائیکرو کلائمٹ اور نمی کی نگرانی، شہری سائنس پلیٹ فارم کے ذریعے حیاتی ڈیٹا جمع کرنا اور پیش گوئی سے متعلق تجزیاتی سافٹ ویئرز کے ذریعے جنگلاتی آگ اور غیرمقامی پودوں کی شناخت کرنا، شامل ہے۔
اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف مینجمنٹ ایکٹ 2024 نے غیرقانونی تعمیرات اور شکار پر سخت سزائیں مقرر کی ہیں لیکن شکار اور غیرقانونی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں اور موسمیاتی شقیں شامل نہیں ہیں۔
ماہرین کے مطابق مارگلہ ہلز کے تحفظ کے لیے تعلیم، عوامی شمولیت اور ادارہ جاتی اصلاحات ضروری ہیں۔ WWF اور دیگر تنظیمیں گرین سکول پروگام، نیچر واکس، شہری ورکشاپس، کیلن ہائیکنگ ٹریز مہمات اور شجرکاری کی مہمات کے ذریعے عوامی شعور بڑھا رہی ہیں۔
کچھ ضروری اقدامات سے جنگلی حیات اور نایاب پودوں کو بچایا جا سکتا ہے (فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف)
اسی طرح ڈاکٹر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ 1990 میں مارگلہ ہلز کا 5.7 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو 2021 میں 25.7 فیصد تعمیر شدہ علاقے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ راول لیک اور شکرپڑیاں بھی شدید دباؤ میں ہیں۔
ان کے مطابق ’مقامی نباتات کی شجرکاری، چیک ڈیمز اور واٹر پونڈز، گرین اربن پلاننگ اور فضلہ مینجمنٹ کے سخت نظام مارگلہ ہلز کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم، عوامی شمولیت اور موثر قانون سازی کے اقدامات کیے جائیں تو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو ’شرکتِ عامہ پر مبنی تحفظ کی مثال‘ بنایا جا سکتا ہے اور یہ قدرتی خزانہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رہ سکتا ہے۔