Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور: جعلی اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے رقم نکلوانے کا فراڈ، میاں بیوی کو 30، 30 سال قید کی سزا

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک عدالت نے جعلی اے ٹی ایم کارڈ بنا کر لوگوں کے اکاؤنٹس سے رقم نکالنے میں ملوث ایک خاتون اور اس کے شوہر کو جُرم ثابت ہونے پر سزا سنا دی ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق خاتون مدیحہ غفور اور ان کے شوہر وقاص پر جعلی اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے فراڈ کرنے کا جُرم ثابت ہوا ہے۔ 
دونوں میاں بیوی کو عدالت نے 30، 30 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ جوڑا جو لاہور کا رہائشی ہے نے 2011 میں اس جُرم کا ارتکاب کیا تھا جبکہ اب 14 سال بعد جُرم ثابت ہونے پر عدالت نے سزا سنائی ہے۔
خیال رہے کہ اس کیس کا اندراج 2011 میں ہوا تھا جبکہ مدعی مقدمہ قاضی علی ملک نے پولیس کو درخواست دی کہ ان کے اے ٹی ایم کے ذریعے رقم نکل رہی ہے جبکہ وہ خود رقم نکلوا نہیں رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ کے اندر اندر میرے اکاؤنٹ سے آٹھ لاکھ روپے نکالے جا چکے ہیں، اس کے بعد پولیس نے ان کے بینک کے ساتھ مل کر ملزمان کو ڈھونڈ نکالا جب وہ ایک بار پھر پیسے نکلوا کر بینک سے نکل رہے تھے۔ 
پولیس نے ملزمان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جبکہ اس گینگ کا ایک تیسرا ملزم بھی پولیس نے گرفتار کیا جس نے جعلی اے ٹی ایم کارڈ بنانے میں مدد کی تھی۔ تیسرے ملزم کو بھی 30 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 2011 میں لاہور اور آس پاس کے شہروں میں بڑے پیمانے پر  نقد رقم نکالنے والی مشینوں پر ایک منظم گروہ سرگرم رہا جس نے درجنوں شہریوں کے جعلی کارڈ بنائے۔ 
پولیس کے مطابق مدیحہ اور ان کے شوہر وقاص نے اسی دور میں مل کر مشینوں پر چھوٹے چھوٹے آلات نصب کیے جو کارڈز کی معلومات چوری کر لیتے تھے۔ 
اس طرح انہوں نے درجنوں شہریوں کے اکاؤنٹس سے لاکھوں روپے نکلوائے۔ زیادہ تر ایک ہی بینک کی کئی مشینوں سے صارفین کی معلومات لیک ہوئیں جو کہ ایک بحران کی صورت حال تھی۔ 
اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نوٹس لیا اور تمام بینکوں کو ہدایات جاری کیں کہ مشینوں کی حفاظت بڑھائی جائے۔ 
نقد نکالنے والی مشینوں پر فراڈ:
یہ کیس پاکستان میں نقد رقم نکالنے والی مشینوں سے ہونے والے فراڈ کی صرف ایک جھلک ہے۔ ملک بھر میں اب تک کم سے کم پانچ بڑی اقسام کے ایسے جرائم سامنے آ چکے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ شہری ’سکِمنگ‘ کا شکار ہوئے ہیں۔ 
سکِمنگ میں ملزمان مشینوں پر چھوٹے آلات لگا دیتے ہیں جو کارڈ کی مقناطیسی پٹی اور خفیہ کوڈ (پِن نمبر) چوری کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ جعلی کارڈ بنا کر رقم نکلوا لیتے ہیں۔ 
دوسری قسم ’کیش ٹریپنگ‘ ہے جہاں مشین کا نقد سلائیٹ روکنے والا آلہ لگایا جاتا ہے۔ صارف کو رسید مل جاتی ہے مگر پیسے پھنس جاتے ہیں، اور ملزم بعد میں انہیں چھین لیتے ہیں۔
تیسری قسم ’کارڈ ٹریپنگ‘ ہے جس میں کارڈ مشین میں پھنس جاتا ہے اور ملزم مدد کے بہانے سے اسے چھین لیتا ہے۔ چوتھی ’شولڈر سرفنگ‘، جہاں ملزم پیچھے کھڑے ہو کر پِن کو دیکھ لیتا ہے اور پانچویں جعلی مشینیں لگانا جو شہروں کے ویران علاقوں میں رکھی جاتی ہیں۔ 
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2025 میں پاکستان میں آن لائن اور ڈیجیٹل فراڈ سے تقریباً نو ارب روپے کا نقصان ہوا، اس میں نقد رقم نکالنے والی مشینوں کے جرائم کا حصہ 20 فیصد سے زائد ہے۔ 
سزا کا قانون کیا ہے؟
پاکستان میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے 2016 میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون (پیکا) نافذ کیا گیا جو نقد نکالنے والی مشینوں پر فراڈ کو بھی شامل کرتا ہے۔ 
اس قانون کی دفعہ 14 کے تحت الیکٹرانک مالی فراڈ پر پانچ سال تک قید ایک کروڑ روپے تک جُرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ 
اگر جرائم سنگین ہوں، جیسے بڑے پیمانے پر اکاؤنٹس متاثر ہوں تو سزا سات سال تک بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 420 (دھوکہ دہی) کے تحت سات سال قید اور جُرمانہ ہے جبکہ جعل سازی پر 10 سال تک کی سزا ممکن ہے۔ 
اس کیس میں 30 سال کی سزا متعدد الزامات کی بنیاد پر دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے سخت فیصلوں سے جرائم کم ہوں گے مگر شہریوں کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے، مشینوں پر مشکوک آلات دیکھیں پِن چھپائیں، اور فوری طور پر بینک کو مطلع کریں۔

شیئر: