ملک کے مختلف بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر پاکستانی مسافروں کو بلاجواز آف لوڈ کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد وزارت اوورسیز پاکستانیز کی شکایت پر حکام نے نوٹس لے کر اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بتایا ہے کہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے اور پہلے بھی ایسے اہلکاروں کو سزائیں دی جا چکی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سٹامپ پیپر کے لیے رجسٹرڈ سم لازمی، اوورسیز کے لیے نیا مسئلہ؟Node ID: 896550
ایف آئی اے کے مطابق ’محکمے کے 86 افسران و اہلکاروں کے خلاف غیرقانونی امیگریشن میں سہولت کاری، رشوت خوری، مسافروں کو تنگ کرنے، ایجنٹس سے تعلقات اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت کارروائیاں کی گئی ہیں۔‘
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ’54 کیسز ایف آئی اے جبکہ 32 وزارتِ داخلہ نے درج کروائے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 27 اہلکاروں کو معمولی سزائیں، 28 کو بڑی سزائیں جبکہ 8 کو تحقیقات کے بعد الزامات سے بری کردیا گیا۔‘
وزارت داخلہ نے مزید بتایا کہ ’یہ اقدامات وقتاً فوقتاً موصول ہونے والی شکایات کی روشنی میں کیے گئے جن میں امیگریشن عملے کے غیر پیشہ ورانہ رویوں اور مسافروں سے غیر ضروری پوچھ گچھ کے واقعات کی نشان دہی کی گئی تھی۔‘
ایف آئی اے کے مطابق ’ایسی شکایات کے بعد شفافیت کے لیے ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز میں امیگریشن مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا گیا ہے جو تمام بڑے ہوائی اڈوں پر امیگریشن کے عمل کی براہ راست نگرانی کرتا ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی رسک اینالیسس یونٹ بھی تشکیل دیا گیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اہلکاروں کی کارکردگی اور شکایات کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ کسی بھی بدعنوانی یا اختیارات کے غلط استعمال کی بروقت نشان دہی ہو سکے۔
مزید بتایا گیا کہ امیگریشن نظام میں انسانی مداخلت کم کرنے کے لیے ای۔گیٹس (خودکار گیٹ سسٹم) اور ای۔امی (eIMMI) ایپلی کیشن متعارف کروائی جا رہی ہے۔
’اس کے ذریعے مسافر ہوائی اڈے پر پہنچنے سے قبل اپنی دستاویزات اپ لوڈ کر سکیں گے۔ اس سے امیگریشن کلیئرنس کا عمل تیز، شفاف اور ریکارڈ شدہ ہو جائے گا۔‘

حکام کے مطابق ’ایف آئی اے نے اہلکاروں کی روٹیشنل پوسٹنگ پالیسی بھی نافذ کر رکھی ہے تاکہ کوئی اہلکار طویل عرصے تک ایک ہی ایئرپورٹ پر تعینات نہ رہے۔‘
’اس کے علاوہ محکمانہ کارروائیوں کو تیز کرنے کے لیے اختیارات ڈائریکٹرز اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرلز کو تفویض کیے گئے ہیں، جبکہ ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی (DIA) کے ذریعے احتسابی عمل مزید مضبوط کیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ ایئرپورٹس پر بیرون ملک جانے والے پاکستانی ورکرز کے ساتھ آف لوڈنگ کے غیر معمولی واقعات کے بعد وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز چوہدری سالک حسین نے ایف آئی اے، وزارتِ داخلہ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکام کے ساتھ ملاقات کی۔
اس ملاقات اور اعلٰی سطح کے اجلاس میں انہوں نے ہدایت کی کہ ’ایئرپورٹس پر امیگریشن عملے کے رویے کو انسانی احترام اور شفافیت کے معیار کے مطابق لایا جائے، اور کسی پاکستانی محنت کش کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’بیرون ملک جانے والے پاکستانی محنت کش ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ لاتے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘

’آئندہ اگر کسی مسافر کو کسی وجہ سے روکا جائے تو اس کی وجوہات تحریری طور پر ریکارڈ کی جائیں اور وزارتِ اوورسیز کو اس کی فوری اطلاع دی جائے۔‘
رپورٹس کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ہوائی اڈوں پر متعدد پاکستانی شہریوں کو قانونی دستاویزات ہونے کے باوجود پروازوں سے اُتارا گیا۔
متاثرہ مسافروں نے شکایت کی کہ اُن کے ویزے، پاسپورٹ، ٹکٹ اور ورک پرمٹ درست تھے، لیکن اس کے باوجود ایف آئی اے اہلکاروں نے ’مزید تصدیق‘ کے بہانے اُن کا سفر روک دیا۔
جہلم کے رہائشی محمد نعیم، جو بحرین میں ملازمت کے لیے جا رہے تھے، نے بتایا کہ ’کمپنی کا آفر لیٹر، ویزہ، ٹکٹ اور تمام دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود مجھے ایف آئی اے نے سفر نہیں کرنے دیا۔‘
’ایف آئی اے کے اہلکار نے مجھ سے کہا کہ آپ کی دستاویزات کی مزید تصدیق درکار ہے اور پھر مجھے طیارے سے اُتار دیا گیا اور حلف نامہ لانے کا کہا گیا۔‘
محمد نعیم کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر حلف نامے کا دستاویزات میں کبھی کوئی ذکر تک موجود نہیں ہوتا۔ میرے لیے یہ رویہ بہت دِل شکن تھا اور مالی نقصان کا باعث بھی بنا۔‘

وزارتِ اوورسیز پاکستانیز نے اعتراف کیا کہ بعض اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز اور انسانی وسائل کے اداروں نے بھی شکایت کی ہے کہ ایسے اقدامات سے قانونی مسافروں کی بدنامی اور روزگار کے مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔
وزارت نے ہدایت دی ہے کہ مشکوک افراد اور قانونی مسافروں کے درمیان فرق واضح رکھا جائے تاکہ کسی محنت کش پاکستانی کو بلاوجہ تذلیل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ترجمان ایف آئی اے نے وضاحت کی کہ ادارہ صرف ان افراد کو روکتا ہے جن کی دستاویزات میں تضاد ہو یا جن کے سفر کے مقاصد مشکوک ہوں۔
ترجمان کے مطابق ’قانونی طور پر تمام درکار کاغذات رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو روکنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، تاہم انسانی سمگلنگ یا جعلی ویزوں کی اطلاع کی صورت میں عارضی تفتیش کی جاتی ہے۔‘
وزارت اوورسیز نے امید ظاہر کی کہ ایف آئی اے میں جاری اصلاحات، جدید ٹیکنالوجی پر مبنی نگرانی اور اندرونی احتساب کے نظام سے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوگی جن میں پاکستانی مسافروں کو بلاجواز آف لوڈ یا ہراساں کیا جاتا ہے۔
’حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو عزت و احترام کے ساتھ محفوظ اور شفاف سفری سہولت فراہم کی جائے تاکہ ملک کی ساکھ بہتر ہو اور محنت کش طبقہ بااعتماد طریقے سے اپنا سفر جاری رکھ سکے۔‘












