فیصل آباد میں ون ڈے سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں پاکستانی سپنرز نے کمال کر دکھایا۔ پاکستان کو شاندار فتح دلوائی۔ جنوبی افریقہ کو یک طرفہ میچ میں یوں ہرانا قابل داد اور دل خوش کن ہے۔ پاکستان نے پہلی بار جنوبی افریقہ کو ہوم گراؤنڈ میں کوئی ون ڈے سیریز ہرائی۔ شاہین شاہ نے بطور کپتان پہلی ون ڈے سیریز دو ایک سے جیت لی۔
آج کےمیچ میں خاص بات پاکستان کا کم بیک تھا۔ پاکستانی ٹیم دوسرا میچ بری طرح ہار چکی تھی۔ جنوبی افریقہ کے بیٹرز نے ایسے دھنائی کی تھی جیسے کسی کلب بولرز کو کھیل رہے ہوں۔ ایسی بری اور یک طرفہ شکست کے بعد سیریز میں واپسی آسان نہیں ہوتی۔
یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان آخری ون ڈے میں بھی دباؤ میں کھیلے گا۔ تاہم تیسرے میچ میں پاکستانی ٹیم یکسر بدلی ہوئی نظر آئی۔ باڈی لینگویج پراعتماد تھی، میچ پلان بہتر تھا اور سپن بولرز نے شاندار بولنگ کرائی۔ ریگولر سپنرز کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائمر سلمان آغا نے بھی عمدہ بولنگ کرائی، چار اوورز میں صرف 18 رنز دے کر دو وکٹیں لیں۔ آغا کو اگر مزید اوورز دیے جاتے تو شاید ایک آدھ وکٹ اور مل جاتی۔
مزید پڑھیں
-
پہلا ون ڈے: پاکستان نے جنوبی افریقہ کو دو وکٹوں سے شکست دے دیNode ID: 896786
آج کے میچ سے پاکستانی ٹیم نے ایک اور سبق بھی سیکھا کہ ہوم سیریز میں اپنی قوت فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ پہلے ون ڈے میں پاکستانی سپنرز نے عمدہ بولنگ کرائی تھی، ابرار احمد خاص طور سے متاثرکن رہے تھے، تین وکٹیں لیں جبکہ دو وکٹیں مسلسل گیندوں پر ملیں۔ درمیانی اوورز میں وہ سپنر چاہیے ہوتا ہے جو رنز کم دے اور وکٹیں لے۔ مسلسل گرتی وکٹوں سے مخالف ٹیم دباؤ میں آتی ہے، یہی پہلے ون ڈے میں ہوا تھا۔
دوسرے ون ڈے میں نجانے کس سیانے نے مشورہ دیا کہ ابرار کو ڈراپ کر کے وسیم جونیئر کو کھلایا جائے۔ وسیم کی بولنگ بری نہیں رہی، مگر بہرحال سپیشلسٹ سپنر کو نہ کھلانا نقصان دہ رہا۔ ابرار کے نہ ہونے سے دیگر سپنرز پر بھی دباؤ آیا۔ پاکستانی فاسٹ بولرز شاہین، نسیم شاہ، وسیم جونیئر، فہیم اشرف سب کے سب غیر موثر رہے، پٹتے رہے۔ نواز اور صائم کو بھی مدد نہ ملی اور یوں پاکستان اچھا بھلا سکور کرنے کے بعد بھی میچ ہار گیا۔ دوسرے ون ڈے میں میچ سٹریٹجی بھی عام سی رہی۔ جب فاسٹ بولرز کارگر نہیں ہو رہے تھے تو کچھ بھی نیا نہ کیا گیا۔
تیسرے ون ڈے میں پچھلے میچ کی غلطیوں سے سبق سیکھا گیا۔ ابرار احمد کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ حارث رؤف جو پچھلےدونوں ون ڈے میچز میں پابندی کے باعث نہیں کھیل سکے تھے، انہیں بھی کھلایا گیا۔ یہ اور بات کہ حارث ردھم میں نہیں تھے، پہلے اوور میں تین چوکے کھا بیٹھے، تین اوورز کرائے اور غیرموثر رہے۔ تیسرے ون ڈے میچ میں ایک اور دلچسپ تبدیلی یہ ہوئی کہ دوسرے اینڈ سے صائم ایوب کو نئی گیند دے کر بولنگ کرائی گئی۔ پہلے 10اوورز میں صائم نے پانچ اوورز کرائے اور صرف 17 رنز دیے۔ اس طرح کی سٹریٹجی پچھلے ون ڈے میں بھی آزمانی چاہیے تھی۔

جنوبی افریقہ کی ٹیم میں کئی نئے اور ناتجربہ کار کھلاڑی شامل ہیں۔ تاہم ان کی ٹاپ آرڈر اچھا کھیل رہی ہے۔ تجربہ کار اوپنر ڈی کاک نے پچھلے میچ میں سینچری کی تھی، آج بھی وہ اچھا کھیلے، نصف سینچری بنائی، تاہم پاکستانی سپنرز نے انہیں باندھ کر رکھا۔ ابرار نے دباؤ ڈالا اور اس کا فائدہ نواز کو ملا جس نے ڈی کاک کی وکٹ لی۔ پریٹوریس اور ڈی زورزی دونوں اچھا تیز کھیلنے والے ہیں، آج ان دونوں کو سلمان آغا نے آؤٹ کر کے جنوبی افریقہ کی تباہی کی بنیاد ڈال دی۔
سب سے تباہ کن مگر ابرار احمد رہے۔ ابرار نے اپنی گھومتی گیندوں سے جنوبی افریقی بلے بازوں کو پریشان کیا اور چار اہم وکٹیں لے کر مڈل آرڈر اور لوئر مڈل آرڈر کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے پہلے ون ڈے میچ کی طرح تیسرے میں بھی دو گیندوں پر دو مسلسل وکٹیں لے کر جنوبی افریقہ کی کمر توڑ دی۔ ابرار نے بعض غیرمعمولی ٹرننگ گیندیں کرائیں جن پر کوئی بھی بڑا بیٹر آؤٹ ہوسکتا تھا۔
اقبال سٹیڈیم کی سپن فرینڈلی پچ پر ابرار نے جنوبی افریقہ کے بیٹرز کو الجھا کر رکھ دیا۔ 4 وکٹیں محض 27 رنز کے عوض۔ کلاس، کنٹرول اور ویری ایشن کا دلکش امتزاج رہا۔ ابرار کی لائن ولینتھ شاندار رہی۔ انہوں نے کچھ فلائیٹ دے کر گیند کو سپن کرایا اور بیٹرز کو کنفیوز کیے رکھا۔
محمد نواز نے بھی اچھی بولنگ کرائی اور دو وکٹیں لے اڑے۔ آخر میں شاہین شاہ نے دو گیندوں پر دو آؤٹ کر کے جنوبی افریقہ کو صرف 143 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ یہ پاکستانی بولنگ کی غیرمعمولی کارکردگی تھی۔ جنوبی افریقہ نے میچ سے پہلے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس پچ پر 290 بننے چاہییں، وہ اس کا بمشکل نصف بنا پائے۔
میچ کا نتیجہ تو واضح ہوچکا تھا، مگر پاکستان کی ناقابل اعتماد بیٹنگ سے خطرہ ہمیشہ محسوس ہوتا ہے۔ فخرزماں ایک بار پھر ناکام ہوئے۔ پچھلے میچ کی طرح صفر پر آوٹ ہوئے، جس طرح وہ بولڈ ہوئے، وہ افسوسناک تھا۔ بیٹ اور پیڈ میں اتنے بڑے گیپ کے ساتھ کسی کوالٹی فاسٹ بولنگ کو نہیں کھیلا جا سکتا۔ فخر نے پہلے میچ میں وکٹ تھرو کی اور دوسرے، تیسرے ون ڈے میں صفر کیا۔ اس فارم کے ساتھ انہیں ٹی20 ٹیم میں شامل کرنے کا کیس کمزور ہوجاتا ہے۔

آج کا دن صائم ایوب کے نام رہا۔ انہوں نے نئی گیند سے اچھی نپی تلی بولنگ کرائی اور پھر بیٹنگ میں کمال کر دیا۔ جارحانہ انداز سے کھیلتے ہوئے کسی دباؤ میں آئے بغیر شاندار نصف سینچری بنائی۔ 110کے سٹرائیک ریٹ سے جو ون ڈے میں متاثرکن ہے، صائم نے 77 رنز بنائے۔ فخر کے پہلے اوور میں آؤٹ ہوجانے کے بعد پہلے صائم اور بابر نے تیز کھیلتے ہوئے 60 گیندوں پر 65 رنز کی پارٹنر شپ بنائی اور پھر صائم نے رضوان کے ساتھ سکون سے کھیلتے ہوئے 80 گیندوں پر 65 رنز کی پارٹنر شپ بنائی۔
صائم ایوب کی اننگ دیکھنا ایک شاندار تجربہ تھا۔ انہوں نے وکٹ کے چاروں طرف سٹروکس کھیلے، جارحانہ شاٹس بھی کھیلے اور ذمہ دارانہ سنگلز بھی لیتے رہے۔ فخر کے آؤٹ ہوجانے کے بعد بھی صائم نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا اور جیسی اننگ کھیلی، اس سے خود ان کے اعتماد میں خاصا اضافہ ہوا ہوگا۔
جب صائم ایوب آؤٹ ہوئے تو میچ اختتام کے قریب تھا اور پھر سلمان آغا نے وننگ شاٹ لگا کر سات وکٹوں سے میچ جتوا دیا۔ محمد رضوان نے کمپوزڈ بیٹنگ کی، ذمہ دارانہ انداز میں کھیلتے ہوئے 32 رنز بنائے اورمیچ کو فنش کیا۔
بابراعظم آج اچھا کھیل رہے تھے۔ انہوں نے نگیڈی کو ایک اوور میں دو خوبصورت چوکے لگائے، جن میں ایک کور ڈرائیو ورلڈ کلاس شاٹ تھا۔ بابر نے پانچ چوکوں کے ساتھ 27 رنز بنائے، تاہم بدقسمتی سے وہ رن آؤٹ ہوگئے۔ اگر بابر رن آؤٹ نہ ہوتے تو شاید آج نصف سینچری بنا جاتے۔
آج شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی اچھی رہی۔ بولنگ میں صائم ایوب سے نئی گیند کرانا اور پھر دونوں لیفٹ ہینڈ بیٹرز کو دیکھتے ہوئے سلمان آغا کو آزمانا۔ پھر نواز اور ابرار کو عمدگی سے استعمال کیا۔ آخر میں خود آ کر ریورس سوئنگ کی کوشش کی اور خوبصورت یارکرز کرا کر جنوبی افریقی اننگ کو ختم کر ڈالا۔

اینڈ آف دا ڈے، جیت جیت ہی ہوتی ہے۔ پاکستان ون ڈے سیریز جیت گیا، ویل ڈن۔ پاکستان نے ٹی20 کی طرح ون ڈے سیریز بھی جیت لی، جبکہ ٹیسٹ سیریز برابر رہی۔ یعنی جنوبی افریقہ کے مقابلے میں مجموعی طور پر پاکستان کا پلہ بھاری رہا۔ وائٹ بال کوچ مائیک ہیسمین نے کچھ غلطیاں کیں، مگر بہرحال ان کی کوچنگ میں ٹیم نے دونوں وائٹ بال سیریز جیت لی ہیں۔ انہیں کریڈٹ دینا ہی ہوگا۔
پاکستانی ٹیم کے لیے اگلا چیلنج چند دنوں بعد شروع ہونے والی سہہ ملکی سیریز ہوگی۔ اس میں سری لنکا کےساتھ تیسری ٹیم زمبابوے ہوگی۔ افغانستان نے کھیلنا تھا، مگر اس کے انکار کے بعد زمبابوے کو شامل کیا گیا۔ یہ سیریز 17 نومبر سے 29 نومبر تک جاری رہے گی۔ بیسٹ آف لک فار ٹیم پاکستان۔












