پاکستان میں وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد حکومت نے 27ویں ترمیم کا بِل سینیٹ میں پیش کر دیا ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم اگر پارلیمنٹ سے منظور ہو گئی تو پاکستان کے آئینی، عدالتی اور عسکری ڈھانچے میں کئی دہائیوں بعد ایسی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوں گی جو نہ صرف طاقت کے توازن بلکہ ریاستی فیصلوں کے نظام کو بھی نئی سمت دے سکتی ہیں۔
27ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے درجنوں آرٹیکلز میں تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ جن میں فوجی قیادت کی تقرری کے طریقہ کار سے لے کر سپریم کورٹ کے اختیارات، وزیراعظم کے استثنیٰ اور ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام تک کئی بڑے اقدامات شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
ترمیمی بل کے مطابق سب سے نمایاں اور فوری طور پر اثر انداز ہونے والی تبدیلی عسکری نظام سے متعلق ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے ’چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا اور آرمی چیف کو بیک وقت ’چیف آف دی ڈیفنس فورسز‘ قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان کی تقرری کا اختیار صدر کے پاس ہوگا جو وزیراعظم کی ایڈوائس پر یہ تقرریاں کریں گے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے۔ فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحیات رہیں گے۔ انہیں صرف آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت ہی عہدے سے ہٹایا جا سکے گا۔ اس سے دفاعی ڈھانچے کی تنظیم نو کے بعد فوجی قیادت کا کردار پہلے سے زیادہ مرکزیت اختیار کر جائے گا اور کمانڈ سٹرکچر میں واضح تبدیلی واقع ہو گی۔
ترمیمی بل کا دوسرا بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ اس کے تحت ایک علیحدہ ’وفاقی آئینی عدالت‘ کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو آئینی تنازعات، وفاق اور صوبوں کے اختلافات، بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات اور آئین کی تشریح جیسے معاملات کی سماعت کرے گی۔

آئین میں ایک نیا باب ’باب اول الف‘ کے نام سے شامل کیا گیا ہے جس کے تحت اس عدالت کے قیام، دائرہ اختیار اور ججوں کی تقرری سے متعلق تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس عدالت کے سربراہ ’چیف جسٹس آف دی فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ آف پاکستان‘ کہلائیں گے اور عدالت کے ججوں کی تعداد صدرِ مملکت طے کریں گے۔ شرط یہ رکھی گئی ہے کہ چاروں صوبوں سے مساوی نمائندگی ہو تاکہ عدالت کو وفاقی توازن کا مظہر بنایا جا سکے۔ عدالت کا مستقل صدر مقام اسلام آباد ہوگا، ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال ہوگی جو عمر پوری ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو سکتی ہے۔
مجوزہ ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اختیارات میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سب سے نمایاں تبدیلی آئین کے آرٹیکل 184 کی منسوخی ہے، جس کے ذریعے سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم کر دیا جائے گا۔ اس اختیار کو وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو بنیادی حقوق یا آئینی نوعیت کے مقدمات میں خود کارروائی کر سکے گی۔
اسی طرح آرٹیکل 185 میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو صرف اپیلوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آئین کے نئے آرٹیکل 189 میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں بشمول سپریم کورٹ پر لازم ہوں گے، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے وفاقی آئینی عدالت پر لازم نہیں ہوں گے۔ اس تبدیلی سے عدلیہ کے اندر ایک نئی درجہ بندی قائم ہو جائے گی جہاں آئینی تشریح اور پالیسی کی سطح پر فیصلوں کا آخری اختیار وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہوگا۔
ترمیم میں عدالتی تقرریوں اور ضابطہ اخلاق کے نظام میں بھی نمایاں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں اب سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت دونوں کے چیف جسٹسز شامل ہوں گے۔ جو چیف جسٹس سینیارٹی میں برتر ہوں گے وہ کمیشن یا کونسل کے چیئرمین کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔ ترمیم میں یہ بھی درج ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس اور ججوں کی تقرری صدرِ مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے، تاہم یہ شق صرف ابتدائی تقرریوں تک محدود ہوگی۔ اس نئے نظام کے تحت عدلیہ کے اندر دو مرکزی سطحیں قائم ہوں گی جن کی تقرریوں میں انتظامی مشاورت کا کردار زیادہ نمایاں ہو جائے گا۔

آرٹیکل 200 میں ترمیم بھی ڈرافٹ میں شامل ہے، صدر مملکت ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کو جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ٹرانسفر کرنے کے مجاز ہوں گے، ہائیکورٹ سے ججز کے تبادلے کی صورت میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبران ہوں گے۔
ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دے دیا گیا، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ تبادلے کی صورت میں آنے والے جج کی سنیارٹی اس بطور جج پہلی تقرری سے شمار ہوگی، ایسے کسی جج کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا جو کسی دوسری عدالتی کی سنیارٹی پر اثرانداز ہوکر چیف جسٹس سے سینیئر ہوں۔
ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سینیئر نہیں ہوگا، ٹرانسفر سے انکار پر جج کو ریٹائر کر دیا جائے گا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقررہ مدت تک کی پنشن اور مراعات دی جائیں گی۔
وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار پر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا متعلقہ جج ریٹائر تصور ہوگا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقررہ مدت تک پنشن اور مراعات ججز کو دی جائیں گی، وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جوڈیشل کونسل کے ممبر ہوں گے۔
وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے دو سنیئر ججز جوڈیشل کونسل کے ممبر ہوں گے، وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو چیف جسٹس سپریم کورٹ یا چیف جسٹس آئینی عدالت مشترکہ طور پر دو سال کیلئے نامزد کر سکتی ہے۔
ہائیکورٹ کے دو سینیئر ججز بھی جوڈیشل کونسل کے ممبر کو ہوں گے، سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سینیئر کونسل کا سربراہ ہوگا، سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی سنیارٹی کا تعین بطور چیف جسٹس سے ہوگا۔













