Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں آن لائن ٹیکسی سروسز کی ریگولرائزیشن نہ ہونے سے صارفین کو نقصانات کیا ہیں؟

دو بین الاقوامی ٹیکسی سروسز پاکستان میں اپنا کام بند کر چکی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اب روایتی ٹیکسی سروس کی جگہ آن لائن ٹیکسی سروس کا استعمال تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ یہ جدید سروسز شہریوں کو سہولت اور ایپ کے ذریعے محفوظ سفر کا تصور فراہم کرتی ہیں۔
شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ پاکستان میں آن لائن ٹیکسی سروسز کو ریگولرائز کرنے کے لیے ابھی تک کوئی ایک ادارہ یا پالیسی مکمل طور پر فعال نہیں۔
یعنی ٹیکسی سروس چلانے کے لیے کیا ضروری تقاضے ہونے چاہییں، کیا نہیں، اور اس میں بیٹھنے والے مسافروں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہییں۔ اس حوالے سے حکومت اب تک کوئی واضح پالیسی نافذ نہیں کر سکی۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر اس حوالے سے مختلف تجاویز ضرور سامنے آئی ہیں، تاہم ابھی تک ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
اس وقت اگر پاکستان میں کوئی نئی ٹیکسی سروس کام شروع کرنا چاہے تو وہ صرف کمپنی رجسٹریشن کی حد تک سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹر ہوتی ہے۔
تاہم اس کے بعد ان سروسز کی ریگولرائزیشن، سکیورٹی، پرائیویسی یا ضوابط مقرر کرنے کے لیے کوئی مربوط نظام یا منظوری کا طریقہ کار موجود نہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آن لائن ٹیکسی سروسز کے لیے اس وقت کیا قوائد رائج ہیں اور ریگولرائزیشن نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت کم از کم تین معروف آن لائن ٹیکسی سروسز کام کر رہی ہیں، جو ملک کے تمام بڑے شہروں میں استعمال کی جا رہی ہیں۔
اگر کسی کمپنی کو آن لائن ٹیکسی سروس شروع کرنا ہو تو سب سے پہلے اسے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں بطور کمپنی رجسٹر ہونا ہوتا ہے۔

پاکستان میں سمارٹ فون نہ رکھنے والے شہری اب بھی روایتی ٹیکسی کا استعمال کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ یہ کمپنیاں ایس ای سی پی میں صرف اپنی کارپوریٹ شناخت کے طور پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں جیسا کہ ہزاروں دیگر نجی کمپنیوں اور اس رجسٹریشن کا ٹیکسی سروس کی ریگولرائزیشن یا نگرانی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔
اسلام آباد میں بظاہر یہ ذمہ داری اسلام آباد ٹرانسپورٹ اتھارٹی (آئی ٹی اے) کی ہے، جو ضلعی انتظامیہ کے زیرِانتظام کام کرتی ہے۔
البتہ ابھی تک آئی ٹی اے آن لائن ٹیکسی سروسز کی باقاعدہ رجسٹریشن نہیں کر رہی۔ صرف کسی مخصوص معاملے کے منظرِعام پر آنے پر تحقیقات کی جاتی ہیں۔
اسی طرح صوبائی سطح پر موجود مختلف صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹیز بھی اِن سروسز کی باقاعدہ رجسٹریشن کی پابند نہیں البتہ جہاں ضرورت پڑتی ہے تو وہ معاملہ وقتی طور پر دیکھ لیا جاتا ہے۔
 اس بارے میں ایس ای سی پی کے ترجمان اور اسلام آباد ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکریٹری سے رابطہ کیا گیا تاہم دونوں جانب سے یہی بتایا گیا کہ اس وقت آن لائن ٹیکسی سروسز کے لیے کوئی مکمل پالیسی یا ضابطہ موجود نہیں۔
ایس ای سی پی کے ترجمان کے مطابق ’ایس ای سی پی میں رجسٹریشن صرف کمپنی کے قیام تک محدود ہوتی ہے، نہ کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے کی ریگولرائزیشن سے متعلق۔‘

ملک کے بڑے شہروں میں محفوظ سفر کے لیے آن لائن ٹیکسی سروس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ فائل فوٹو: سٹاک امیجز

آن لائن ٹیکسی سروسز کی ریگولرائزیشن نہ ہونے کے نقصانات کیا ہیں؟

یہ سوال اہم ہے کہ اگر ملک میں آن لائن ٹیکسی سروسز کی باضابطہ رجسٹریشن نہیں ہوتی اور ان کے لیے کوئی واضح قوانین موجود نہیں، تو اس کے نتائج کیا ہیں؟
ایسی صورت میں یہ کمپنیاں کسی سخت ضابطے کی پابند نہیں ہوتیں، اور اگر کسی صارف کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ جائے تو کمپنی کی قانونی ذمہ داری واضح نہیں رہتی۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں آن لائن ٹیکسی سروسز مثلاً ان ڈرائیو، یینگو، بائیکیا وغیرہ پر سفر کرنے والوں کے ساتھ مختلف نوعیت کی وارداتیں پیش آتی رہی ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کمپنیاں ڈرائیور کو رجسٹرڈ کرتے وقت محض اس کا لائسنس، گاڑی کی تصاویر اور چند بنیادی معلومات لیتی ہیں تاہم وہ یہ یقینی نہیں بنا سکتیں کہ مسافر کو لینے آنے والی گاڑی وہی رجسٹرڈ گاڑی ہے یا نہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض اوقات جب صارف رائیڈ بُک کرتا ہے تو اسے جو گاڑی ملتی ہے، وہ کمپنی کے ریکارڈ میں درج گاڑی سے مختلف ہوتی ہے اور ایسے کئی جرائم انہی غیر رجسٹرڈ گاڑیوں میں پیش آئے ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ایسے کم سے کم 10 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں مسافروں کو آن لائن ٹیکسی سروس کے دوران لوٹ مار یا ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ غیر رپورٹ شدہ واقعات کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
کچھ واقعات ایسے بھی رپورٹ ہوئے جن میں آن لائن ٹیکسی سروسز کے ذریعے پارسل یا کوریئر بھیجے گئے، مگر ڈرائیور شہریوں کا لاکھوں روپے کا سامان لے کر غائب ہو گیا۔

آن لائن ٹیکسی سروس کے لیے سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی اچھی کنیکٹیویٹی ضروری ہے۔ فائل فوٹو: ینگو ٹیکسی سروس

ایسے معاملات میں پولیس نے تو ایف آئی آر درج کی، مگر چونکہ ان سروسز کے لیے کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں اس لیے متاثرین کو کمپنی یا کسی ادارے کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں ملا۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے مختلف آن لائن ٹیکسی سروسز سے موقف جاننے کے لیے ای میل کے ذریعے سوال نامے بھیجے تاہم اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
البتہ اسلام آباد کے بلیو ایریا خیبر پلازہ میں واقع ان ڈرائیو کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو برانچ منیجر کا کہنا تھا کہ جب کسی رائیڈر کے ساتھ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو کمپنی پالیسی کے مطابق اس کا شناختی کارڈ، موبائل نمبر، اور ان ڈرائیو اکاؤنٹ ڈیٹا بلاک کر دیا جاتا ہے اور اگر پولیس درخواست کرے تو یہ معلومات فراہم کر دی جاتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی رائیڈر ایسی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو اسے مستقل طور پر پلیٹ فارم سے بلاک کر دیا جاتا ہے۔
تاہم کمپنی رائیڈرز سے کسی مالی ضمانت یا سیکیورٹی ڈیپازٹ کے طور پر کوئی رقم نہیں رکھتی۔
البتہ بائیکیا کمپنی کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ وہ پارسل انشورنس سروس فراہم کرتی ہے، جو صارف کی مرضی پر منحصر ہے۔

آن لائن ٹیکسی سروس کی رجسٹریشن کے لیے حکومت کی اب تک کی کوششیں کیا رہیں؟

پاکستان میں صوبائی اور وفاقی سطح پر ایسی قانون سازی متعارف کروائی گئی ہے جس کا مقصد آن لائن ٹیکسی سروسز کی رجسٹریشن اور حفاظتی معیار کو بہتر بنانا ہے تاہم اب تک یہ نافذ نہیں ہو سکیں۔

آن لائن سروسز کے ذریعے پارسل بھیجنے پر سامان گم ہونے کی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ فائل فوٹو

حال ہی میں سینیٹر سرمد علی کی جانب سے سینیٹ میں ’دی پروونشل موٹر وہیکلز (ترمیمی) بل، 2025‘ پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ٹیکسی سروسز کے لیے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
بل میں پلیٹ فارمز، گاڑیوں اور ڈرائیوروں کے لیے فٹنس سرٹیفکیٹ، پس منظر کی جانچ، تربیت، ریئل ٹائم ڈیٹا شیئرنگ، کرایوں کی شفافیت اور صارفین کے تحفظ جیسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
ان امور پر عمل درآمد کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی ٹرانسپورٹ اتھارٹیز کو سونپنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اسی طرح اسلام آباد پولیس نے بھی ایک آن لائن ٹیکسی تصدیقی ایپ متعارف کروائی ہے جس کا مقصد مسافروں، خاص طور پر خواتین کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
ایپ کے ذریعے گاڑی پر موجود کیو آر کوڈ سکین کر کے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ وہ ٹیکسی متعلقہ حکام کے ساتھ رجسٹرڈ ہے یا نہیں۔
یہ اقدام پولیس کی انفرادی سطح پر کوشش ہے، تاہم یہ بھی مجموعی ریگولرائزیشن کا متبادل نہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں روایتی ٹیکسیوں کے کام پر اثر پڑا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سائبر سکیورٹی اور انفارمیشن ریگولیشن کے ماہر محمد اسدالحمان سمجھتے ہیں کہ آن لائن رائیڈ ہیلنگ ایپس کے لیے کوئی نیا ادارہ بنانے کے بجائے موجودہ ٹرانسپورٹ اتھارٹیز کے اندر ایک مخصوص یونٹ قائم کیا جا سکتا ہے، جو واضح قوانین اور ضوابط کے تحت ان سروسز کو ریگولرائز کرے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتھارٹیز تبھی مؤثر کردار ادا کر سکیں گی جب ان کے پاس قوانین کے ساتھ ساتھ ایک جامع پالیسی ہو، جس میں مسافروں، ڈرائیوروں اور ایپ پلیٹ فارم کے تمام سکیورٹی پہلو شامل ہوں، تاکہ کسی بھی خلاف ورزی پر فوری کارروائی ممکن ہو سکے۔

 

شیئر: