Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حسنی بوقس، معذوری پر قابو پاکر وطن کا نام روشن کرنے والے

’حسنی بوقس 1958 میں پیدا ہوئے اور 2000 میں بینائی سے محروم ہو گئے‘ ( فوٹو: سبق)
بینائی سے محروم حسنی جمیل سنوسی بوقس جو مکہ مکرمہ سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی کہانی کے ساتھ متاثر کن کامیابی کی مثال ہیں۔
انہوں نے نابینائی کو کمزوری نہیں بلکہ تعلیم، انسانی خدمت اور کھیل کے میدان میں امتیاز حاصل کرنے کے لئے نئی شروعات بنا لیا، یہاں تک کہ وہ بصارت سے محروم افراد کی حوصلہ افزائی اور خدمت کا ایک نمایاں استعارہ بن گئے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق حسنی بوقس 1958 میں پیدا ہوئے اور 2000 میں بینائی سے محروم ہو گئے تاہم انہوں نے تعلیم کا سفر جاری رکھا اور شاہ سعود یونورسٹی سے ہیلتھ ایڈمنسٹریشن اور ہسپتال مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
جبکہ امریکہ کی ریاست پنسلوینیا کی ویسٹ چیسٹر سٹیٹ یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں بیچلر کی ڈگری لے لی۔
اس کے علاوہ انہوں نے انڈیا سے انسانی منصوبہ بندی میں اعلیٰ ڈپلومہ بھی حاصل کیا ہے۔
بینائی کھونے کے بعد بوقس نے بصارت سے محروم افراد کے لئے علاجی اور آرام دہ مساج کی تربیت پر مبنی ایک خصوصی منصوبہ قائم کیا۔
وہ پہلے سعودی نابینا شخص بنے جنہوں نے اس پیشے کو اپنایا اور 40 سے زائد نابینا مرد و خواتین کو تربیت دی، جن میں سے کئی نے اپنے ذاتی منصوبے شروع کئے۔
بوقس نے سعودی پیراولمپک ویٹ لفٹنگ ٹیم میں بطور سپورٹس مساج سپیشلسٹ شمولیت اختیار کی اور متحدہ عرب امارات، ہنگری، قازقستان، بحرین اور جارجیا سمیت متعدد ممالک میں 12 سے زائد بین الاقوامی مقابلوں اور تربیتی کیمپوں میں شرکت کی جہاں انہوں نے وطنِ عزیز کی نمائندگی کی ہے۔
فی الوقت وہ مکہ مکرمہ میں اپنے نجی کلینک کے ذریعے علاجی مساج اور ریڑھ کی ہڈی کے توازن کی خدمات فراہم کر رہے ہیں، ساتھ ہی معذور افراد کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے تربیتی ورکشاپس اور آگاہی پروگراموں میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔
حسنی بوقس کی زندگی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ معذوری سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی شروعات ہے، ایسی شروعات جو عزم، حوصلے اور ارادے کے حروف سے لکھی جاتی ہے۔
ان کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ کامیابی کا معیار جسمانی حواس نہیں بلکہ مضبوط ارادے اور مسلسل جد و جہد میں پوشیدہ ہے۔

شیئر: