Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امیروں کا نہیں عام آدمی کا مسئلہ‘، رکن قومی اسمبلی قاسم گیلانی موبائل فونز پر ٹیکس کے مخالف

پاکستان میں مہنگے موبائل فونز پر پی ٹی اے ٹیکس لازمی طور پر ادا کرنا پڑتا ہے (فائل فوٹو: پِلاپ پاکستان)
پاکستان پیپلز پارٹی کے ملتان سے  رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ و سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید قاسم گیلانی ان دنوں موبائل فونز پر عائد پی ٹی اے ٹیکس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
سید قاسم گیلانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ موبائل فون پر پی ٹی اے ٹیکس کو غیرمنصفانہ سمجھتے ہیں، اور اس حوالے سے اُن کے دیگر اراکینِ قومی اسمبلی بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
اپنی ایک اور پوسٹ میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ، وزیرِمملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے  خزانہ کی چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے بھی گفتگو کی ہے، جو اُن کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔
قاسم گیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ متعلقہ وزراء اور پی ٹی اے بھی اس ٹیکس کو درست نہیں سمجھتا۔
اس سے قبل قاسم گیلانی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ایک خط بھی ارسال کر چکے ہیں جس میں موبائل فونز پر غیرمعقول پی ٹی اے اور ایف بی آر ٹیکسز پر نظرِ ثانی کی درخواست کی گئی تھی۔ 
قاسم گیلانی کی ان سرگرمیوں کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا موبائل فونز پر پی ٹی اے ٹیکس ختم کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
اردو نیوز نے اس حوالے سے قاسم گیلانی سے بھی بات کی ہے اور پی ٹی اے ٹیکس کے خلاف آواز بلند کرنے پر اُن کا موقف حاصل کیا ہے لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پی ٹی اے ٹیکس ہوتا کیا ہے؟
پاکستان میں مہنگے موبائل فونز پر عائد معروف ’پی ٹی اے ٹیکس‘ دراصل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا ٹیکس نہیں بلکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے عائد کیا گیا ایک درآمدی یا رجسٹریشن ٹیکس ہے۔

ایف بی آر یہ ٹیکس دراصل اس لیے لگاتا ہے تاکہ سمگل شدہ یا غیرقانونی موبائل فونز کا استعمال روکا جا سکے (فائل فوٹو: فونز دکان)

ایف بی آر یہ ٹیکس وصول کرنے کے بعد پی ٹی اے کو اس سے متعلق آگاہ کرتا ہے جس کے بعد پی ٹی اے اس موبائل ڈیوائس کو پاکستان میں فعال (Activate) کر دیتا ہے۔
چونکہ اس عمل میں پی ٹی اے کا کردار شامل ہوتا ہے، اس لیے صارفین میں اسے ’پی ٹی اے ٹیکس‘ کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔
یہ ٹیکس دراصل اس لیے لگایا جاتا ہے تاکہ سمگل شدہ یا غیرقانونی موبائل فونز کا استعمال روکا جا سکے اور صرف وہی ڈیوائسز پاکستان کے نیٹ ورک پر استعمال ہو سکیں جو قانونی طور پر درآمد یا رجسٹر کی گئی ہوں۔
اگر کوئی شخص دبئی، سعودی عرب، برطانیہ یا کسی بھی ملک سے نیا یا استعمال شدہ فون لا کر پاکستان میں استعمال کرنا چاہتا ہے تو اس فون پر پی ٹی اے رجسٹریشن ٹیکس لازمی ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی موبائل فون پاکستان میں غیر رجسٹرڈ ہے اور اس کا آئی ایم ای آئی پی ٹی اے سسٹم میں ’نان کمپلائنٹ‘ یا ’بلاکڈ‘ آتا ہے تو وہ فون استعمال کے قابل نہیں ہوتا جب تک اس پر ٹیکس ادا نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں جو موبائل فونز سمگل شدہ یا آن لائن غیر رجسٹرڈ حالت میں فروخت کیے جاتے ہیں، انہیں بھی فعال کرنے کے لیے پی ٹی اے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔
پاکستان میں مہنگے موبائل فونز پر پی ٹی اے ٹیکس لازمی طور پر ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ پی ٹی اے اور ایف بی آر موبائل فون پر ٹیکس اس کی قیمت کے لحاظ سے عائد کرتے ہیں۔ جتنا فون مہنگا ہو گا، اتنا ہی زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا۔
مثال کے طور پر اگر کسی موبائل فون کی مالیت 500 سے 700 امریکی ڈالر کے درمیان ہے تو پاسپورٹ پر تقریباً 36 ہزار روپے اور قومی شناختی کارڈ پر تقریباً 48 ہزار روپے ٹیکس بنتا ہے۔

قاسم گیلانی نے کہا کہ وہ موبائل فونز پر بھاری ٹیکس کے خلاف بھرپور مہم چلائیں گے (فائل فوٹو: بلوم پاکستان)

اس سے زیادہ مالیت والے فون مثلاً ایپل کے نئے ماڈلز آئی فون 17 سیریز پر ایف بی آر کے مطابق پی ٹی اے ٹیکس تقریباً دو لاکھ 13 ہزار 631 روپے جبکہ اس کے بنیادی ماڈل پر ایک لاکھ 54 ہزار 293 روپے عائد کیا جاتا ہے۔
’آئی فون یا کوئی بھی اچھا موبائل فون رکھنا عیاشی نہیں‘
 رکن قومی اسمبلی سید قاسم گیلانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا ہے  کہ آج کے دور میں آئی فون یا کوئی بھی اچھا موبائل فون رکھنا کوئی عیاشی نہیں رہا بلکہ یہ عام ضرورت بن چکا ہے۔
اُن کے مطابق بہت سے افراد اپنے بچوں کو بہتر فون دینا چاہتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کا روزگار ہی موبائل سے منسلک ہے۔ ’اگر کوئی شخص اڑھائی لاکھ روپے کا فون خریدے اور اس پر ڈیڑھ یا اڑھائی لاکھ روپے ٹیکس ادا کرے تو یہ سراسر غیرمنطقی بات ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا  کہ ’میں نے اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے پانچ لاکھ روپے ادا کیے اور دو فونز پر بھی تقریباً اتنی ہی رقم ٹیکس کی مد میں جمع کرائی، کیا یہ مناسب ہے؟‘
قاسم گیلانی نے مزید بتایا  کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور مہم چلائیں گے اور ان کی کوشش ہے کہ آئندہ بجٹ سے قبل وزیرِاعظم کو قائل کیا جائے کہ مہنگے فونز پر ٹیکس کی حد زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپے تک مقرر کی جائے۔
انہیں خوشی ہے کہ ’وزیرِ آئی ٹی شزہ خواجہ، وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اکبر کیانی اور خود پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی بھی اس ٹیکس کے خلاف ہیں اور سب کی مشترکہ کوشش ہے کہ اس مسئلے پر وزیرِاعظم کو قائل کیا جائے۔‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر روحان ذکی نے کہا ہے کہ موبائل فونز پر اس نوعیت کے ٹیکس بلاجواز ہیں۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں بتایا  کہ ’یہ امیروں کا نہیں بلکہ عام آدمی کا مسئلہ ہے۔ کئی ایم این ایز بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں اور کچھ تو نان پی ٹی اے فونز جگاڑ لگا کر استعمال کر رہے ہیں، جنہیں ایک اضافی موبائل ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔‘
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر روحان ذکی نے بھی اردو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ موبائل فونز پر اس نوعیت کے ٹیکس بلاجواز ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی ڈیوائسز جو عوامی استعمال کے لیے ہوں اور انڈسٹریل یا کمرشل مقصد کے لیے نہ ہوں، ان پر اس قدر بھاری ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ 
انہوں نے بتایا کہ ’بیرونِ ملک سے آنے والے مسافر پہلے ہی اپنے ملک میں ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے بعد پاکستان میں دوبارہ کسٹمز یا پی ٹی اے کی جانب سے ٹیکس وصول کرنا غیرمنصفانہ ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘

شیئر: