وائٹ ہاؤس نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے جو معاشی مومینٹم پیدا ہوا وہ بدھ کو واشنگٹن کے کینیڈی سینٹر میں ہونے والے سعودی–امریکی سرمایہ کاری فورم تک پہنچ گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق بدھ کے روز اوول آفس اور وائٹ ہاؤس میں ہونے والے گالا ڈنر میں اعلان کردہ اعلیٰ سطح کے سرکاری معاہدے تیزی سے نجی شعبے کے ٹھوس منصوبوں میں بدلے جن کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب باضابطہ طور پر امریکہ کا نان نیٹو اہم اتحادی قرارNode ID: 897365
سعودی عرب کی وزارتِ سرمایہ کاری کی میزبانی میں ’ترقی کے لیے قیادت: سعودی امریکی شراکت کو مضبوط بنانا‘ کے موضوع پر منعقدہ فورم میں دونوں ممالک کے سینیئر سرکاری عہدیداران، بڑے سرمایہ کار اور امریکہ کی طاقتور ترین کمپنیوں کے سی ای اوز نے شرکت کی۔
بدھ کی سہ پہر فورم سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ ’سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان مضبوط تر شراکت داری کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور دفاع، توانائی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری معاہدوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔‘
اپنے خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ درجنوں کمپنیوں کے درمیان 270 ارب ڈالر کے معاہدے طے پا رہے ہیں۔ انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ایک ایسا جرأت مند رہنما قرار دیا جو سعودی–امریکی تعلقات کے لیے پُرعزم ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ سوڈان کی جنگ پر ’کام شروع‘ کریں گے کیونکہ سعودی ولی عہد نے ان سے اس تنازع کے خاتمے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چاہوں گا کہ میں سوڈان کے معاملے میں کوئی بہت پاورفل کام کروں۔ یہ میرے منصوبوں میں شامل نہیں تھا، میں سمجھ رہا تھا کہ یہ ایک بے قابو صورتِ حال ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ آپ کے لیے اور اس کمرے میں موجود بہت سے لوگوں کے لیے کس قدر اہم ہے۔ اور ہم سوڈان پر کام شروع کرنے والے ہیں۔‘

بدھ کی صبح فورم کے افتتاحی سیشن میں سعودی وزیرِ سرمایہ کاری خالد الفالح نے سعودی–امریکی تعاون کی وسعت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر سینکڑوں ارب ڈالر مالیت کے انقلابی کاروباری معاہدوں کا آغاز کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں کئی اہم شعبوں جن میں دفاع، مصنوعی ذہانت، معدنیات اور اہم دھاتوں کی سپلائی چینز شامل ہیں، میں سٹریٹجک سرکاری معاہدوں (جی 2 جی) پر دستخط کیے گئے۔
خالد الفالح نے کہا کہ ولی عہد کا دورۂ واشنگٹن ’سعودی–امریکی شراکت داری کی مضبوطی اور ہمارے مشترکہ عزائم‘ کا ثبوت ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ منگل کے اجلاس میں ’سرمایہ کاری میں تیزی لانے کے لیے سعودی–امریکی سٹریٹجک فریم ورک‘ کے حوالے سے ’ایک اہم قدم‘ اُٹھایا گیا، جو دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کی بروقت منظوری کو یقینی بنائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آج بھی ہم دوبارہ سینکڑوں ارب ڈالر کے انقلابی کاروباری معاہدوں کی شروعات دیکھیں گے، جو ہماری شراکت داری کی مضبوطی اور مشترکہ اہداف کی عکاسی کرتا ہے۔‘
وزیرِ سرمایہ کاری نے زور دے کر کہا کہ ’امریکہ سعودی عرب میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار ہے، اور مملکت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے آنے والے ہر چار ڈالر میں سے ایک امریکہ سے آتا ہے۔‘
امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک نے کہا کہ حالیہ طے شدہ معاہدے ’امریکی کمپنیوں کے لیے جدت، سلامتی اور ٹیکنالوجی کے عالمی میدان میں قیادت کے نئے دروازے کھولتے ہیں۔
یہ تقریب اس لیے منعقد کی گئی تھی تاکہ سعودی سرمایہ کاری کے اہداف خاص طور پر وژن 2030 کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو امریکی جدت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اس اتحاد کے اقتصادی پہلوؤں کو مضبوط کیا جا سکے۔
اس موقع پر ٹیکنالوجی کی سٹریٹجک اہمیت خاص طور پر مصنوعی ذہانت نئے شراکت داری کے اہم ستون کے طور پر اُجاگر کی گئی۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سٹریٹجک پارٹنرشپ پر دستخط کے بعد دونوں فریقین نے اسے جدت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے تاریخی قدم قرار دیا۔
سٹریٹجک شراکت داری کے تحت جدید سیمی کنڈکٹر کی فراہمی، مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز کی ترقی، جدید مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر اور قومی صلاحیتوں کو فروغ دینا شامل ہے جس کے نتیجے میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے در کھلیں گے۔
نجی شعبے نے بھی فوراً اس پر توجہ دیتے ہوئے بڑے مشترکہ منصوبے شروع کر دیے ہیں۔، ایڈوانسڈ مائیکرو ڈیوائسز، سسکو سسٹمز اور سعودی سٹارٹ اپ ’ہیومین‘ نے مشرق وسطیٰ میں ڈیٹا سینٹرز بنانے کے لیے مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ منصوبہ سعودی عرب میں 100 میگاواٹ کے ڈیٹا سینٹر پروجیکٹ سے آغاز کرے گا۔
ہیومین کے سی ای او طارق امین نے تصدیق کی کہ لُوما اے آئی کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ مشترکہ منصوبہ 2030 تک ایک گیگاواٹ تک کے نئے ڈیٹا سینٹرز قائم کرنے کا ہدف رکھتا ہے جو ایشیا، یورپ، انڈیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں وسیع مارکیٹ کو سروسز فراہم کریں گے۔

اس کے علاوہ ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک اور اینویڈیا کے سی ای او جینسن ہوانگ نے مصنوعی ذہانت میں پیش رفت کے موضوع پر ایک مباحثے میں حصہ لیا۔ ایلون مسک نے تصدیق کی کہ ان کا اے آئی منصوبہ ایکس اے آئی اور سعودی عرب اینویڈیا کے ساتھ 500 میگاواٹ کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔
امریکی چپ ساز کمپنی کول کوم کے صدر برائے مشرق وسطیٰ اور افریقہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ماحول بہت مثبت ہے۔ شراکت داری زبردست اور مستحکم ہے۔ میں طویل مدتی مواقع دیکھ رہا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کول کوم کے حوالے سے ہم نے ہیومین کے ساتھ مشترکہ اے آئی انجینئرنگ سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہم نے پہلے ہی سعودی عرب میں سب سے جدید اے آئی چپس اور اے آئی حل ہیومین کے ساتھ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ ایک ہائیبرڈ اے آئی سسٹم بنایا جا سکے۔‘
توانائی کے شعبے جو روایتی طور پر سعودی–امریکی تعلقات کی بنیاد رہا ہے، میں طویل مدتی سرمایہ کاری پر دوبارہ توجہ دی گئی ہے۔ سعودی ارامکو کے سی ای او امین ناصر نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ توانائی کے شعبے میں 30 ارب ڈالر کے معاہدے کرے گا۔
ایم پی میٹریلز، امریکی محکمہ دفاع اور سعودی معدنی کمپنی معادن کے ساتھ مل کر سعودی عرب میں ریئر ارتھ ریفائنری قائم کرے گی۔

یہ مشترکہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں ان اہم معدنیات کی پروسیسنگ کو بڑھانے کا ہدف رکھتا ہے جو فائٹر جیٹس، برقی گاڑیوں، اور دیگر اہم ٹیکنالوجیز کے لیے ضروری ہیں۔
اس معاہدے کے تحت سعودی ریفائنری میں ایم پی اور امریکی محکمہ دفاع کا مشترکہ منصوبہ 49 فیصد حصہ دار ہوگا جبکہ باقی 51 فیصد حصہ سعودی کان کنی کمپنی معادن کے پاس رہے گا۔
فورم میں چھوٹی کمپنیوں نے بھی حصہ لیا تاکہ سعودی مارکیٹ میں داخلے کے مختلف مواقع تلاش کیے جا سکیں۔
نکولس کوپرجو تفریح اور تخلیقی انفراسٹرکچر فرم کنورجینز کے بانی اور سی ای او ہیں، نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’سرمایہ کاری فورم میں شامل ہونا بہت دلچسپ ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سعودی عرب آ کر صرف حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ میرا مقصد ہے کہ میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ موقع منفرد ہے تاکہ ٹیکنالوجی، طرزِ زندگی اور تفریح کی دنیا کو جوڑا جا سکے، ثقافت پر اثر ڈالا جا سکے اور سب سے اہم، اگلی نسل کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔‘











