Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہزادہ محمد بن سلمان فلسطین، شام اور سوڈان میں ترجیحات کی تشکیل کے علمبردار

’سعودی عرب نے عرب مسائل سے نمٹنے کا ایک نیا راستہ متعین کیا ہے‘ ( فوٹو: سبق)
تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتِ حال کے درمیان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے سیاسی اور انسانی قوت کے طور پر خود کو نمایاں کیا ہے جو عرب منظرنامے میں پیش پیش ہے اور جدید سفارت کاری کی سمت نئے خطوط مرتّب کر رہا ہے۔
جامع وژن کے ذریعے، جو محدود مفادات سے بلند ہوکر اجتماعی عمل کے وسیع افق تک پھیلا ہوا ہے، سعودی عرب نے عرب مسائل سے نمٹنے کا ایک نیا راستہ متعین کیا ہے، جو ولی عہد کے گہرے انسانی احساس اور خطے میں توازنِ نو کی بحالی کے قائدانہ کردار پر مبنی ہے، ایسے خطّے میں جو مسلسل بحرانوں سے تھکا ماندہ رہا ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق سعودی سفارت کاری کا اثر واشنگٹن سے لے کر بڑے عالمی مناصب تک واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔
سعودی عرب نے مضبوط اور استدلال پر مبنی پالیسی وضع کرنے کی اپنی صلاحیت ثابت کی ہے، جس کی بنیاد علاقائی و بین الاقوامی حالات کے درست فہم پر ہے۔
یہ اثر خصوصاً اُن ملاقاتوں میں نمایاں ہوا جو ولی عہد نے عالمی قیادت، بالخصوص امریکی قیادت، کے ساتھ کیں، جہاں انہوں نے ایک مربوط سعودی وژن پیش کیا جو استحکام کو فوقیت دیتا ہے اور دیرینہ تنازعات کے منصفانہ حل کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔
اور یہ مؤثر کردار محض سیاسی دائرے تک محدود نہیں بلکہ اپنی وسعت میں معاشی اثر و رسوخ اور علاقائی امور کی عالمی ایجنڈے پر ازسرِنو ترتیب تک پھیلا ہوا ہے جس نے مملکت کو ایسا بنیادی فریق بنا دیا ہے جس کے کردار کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔
سعودی موقف کی قوت
گزشتہ برسوں کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ سعودی عرب اپنے مؤقف کا دفاع شفافیت اور جرأت مندی سے کرنے کی ایک منفرد صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کہ وہ بین الاقوامی فریقوں کو اپنے حل پسندانہ وژن کی افادیت پر قائل کرنے میں کامیاب ہے۔
یہی وہ بنیادی عناصر ہیں جنہوں نے سعودی عرب کو خطے کی ایک معتبر اور مرجعی ریاست کا درجہ دیا ہے جو عمومی مفاد کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے تنازعات کو طول دینے کے بجائے اُن کے اختتام کی کوشش کرتا ہے۔
سعودی عرب نے صرف اپنے مؤقف بیان نہیں کئے بلکہ عملی، قابلِ نفاذ اور حقیقت پر مبنی حل بھی پیش کئے جو عرب بحرانوں کی نوعیت اور پیچیدگی کے گہرے ادراک پر قائم ہیں اور اسی نے عالمی برادری کے اعتماد کو مزید مضبوط کیا ہے۔
شام کا مسئلہ
شام کے معاملے میں سعودی عرب نے اپنے سیاسی اور انسانی وزن کے ساتھ شام کو دوبارہ عرب ماحول میں لانے کی کوششیں کیں اور ایک حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کیا جس کا مقصد شامی عوام کو سالہا سال کی مصیبتوں کے بعد کچھ نہ کچھ استحکام فراہم کرنا تھا۔
ان سعودی کوششوں نے شام کی عرب لیگ میں واپسی کی راہ ہموار کی اور ایک نئے مرحلے کے آغاز کا اشارہ دیا جس کا مقصد دمشق کی تنہائی ختم کرکے ایک جامع حل کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔
یہ سب عالمی سطح پر بھی پذیرائی کے ساتھ ہوا، خصوصاً امریکی انتظامیہ نے شام پر پابندیاں نرم کرنے سے متعلق سعودی کوششوں کا مثبت جواب دیا جس نے ریاض کی حیثیت کو مزید تقویت بخشی کہ وہ بڑی طاقتوں کے موقف کو بھی تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فلسطینی مسئلہ
فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب نے اپنا پورا سیاسی اور انسانی وزن اس عرب اُمت کے اوّلین مسئلے پر مرکوز کیا۔
سعودی عرب نے مصائب کے خاتمے، مستقل فائر بندی، دو ریاستی حل کی حمایت اور خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے والے یکطرفہ اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اپنایا۔
اس کردار نے فلسطینی مسئلے کو دوبارہ عالمی توجہ کے مرکز میں لا کھڑا کیا حالانکہ کچھ بڑی طاقتوں کی ترجیحات میں اس کا مقام کم ہوتا جا رہا تھا۔
سوڈان
سوڈان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر سعودی عرب نے اس مسئلے کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا، اس ادراک کے ساتھ کہ اس کے نتائج پورے خطے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
سیاسی حکمت اور انسانی جذبے کے امتزاج کے ساتھ، سعودی عرب نے بحران کے سدباب کے لئے وسیع کوششیں کیں، فریقین کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی، ضروری انسانی امداد فراہم کی اور ایک جامع اور پائیدار حل کی مشترکہ بنیاد قائم کرنے کی کوشش کی۔
یہ اقدامات سعودی عرب کی اس گہری دلچسپی کی عکاسی کرتے ہیں کہ سوڈانی عوام کی مشکلات کا خاتمہ ہو اور ایک ایسے ملک میں استحکام قائم ہو جو عرب و افریقی سلامتی کا ایک اہم ستون رہا ہے۔
عالمی سطح پر فیصلہ سازی
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کا موجودہ کردار اس کی علاقائی و عالمی موجودگی کو نئے سرے سے تشکیل دے رہا ہے۔
سعودی عرب آج سکیورٹی، سیاست اور معیشت کے اہم ترین معاملات میں ایک ایسی طاقت بن چکا ہے جس کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔
شام، فلسطین اور سوڈان کو اپنی پالیسی کی اولین ترجیحات میں شامل کرکے سعودی عرب زیادہ مستحکم اور زیادہ انسان دوست عرب مستقبل کی بنیاد رکھ رہا ہ، ایسے مستقبل کی جس کی قیادت ایک ایسی شخصیت کر رہی ہے جو گہری بصیرت، بلند انسانی احساس اور چیلنجز کو مواقع میں بدلنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔
 
 

شیئر: