برطانیہ میں تقریباً آدھے لوگ اسرائیل-فلسطین تنازعے کی وجہ سے دوستی ختم کرنے پر آمادہ: نئی تحقیق
جمعرات 20 نومبر 2025 19:22
ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں تقریباً آدھے لوگ اسرائیل-فلسطین تنازعے کی وجہ سے دوستی ختم کرنے تک پر آمادہ ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق تھنک ٹینک ’مور اِن کامن‘ نے اکتوبر میں دو ہزار برطانوی شہریوں کا سروے کیا اور معلوم ہوا کہ فلسطین کے حامی 43 فیصد افراد کسی بھی اسرائیل کے حق کی گئی سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے اپنی دوستی ختم کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔ اسی طرح 46 فیصد اسرائیل کے حامیوں نے کہا کہ وہ بھی اپنے فلسطین کی حمایت کرنے والے دوستوں کے ساتھ ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
تقریباً 75 فیصد لوگوں نے بتایا کہ وہ اس مسئلے پر آن لائن گفتگو کرتے ہوئے غیرآرام دہ محسوس کرتے ہیں، جبکہ 30 فیصد دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کرنے میں بھی جھجک محسوس کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ 67 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ دونوں جانب کی کچھ عوامی ریلیوں پر ان کی ’خلل انگیزی‘ کے باعث پابندی لگنی چاہیے۔
’مور اِن کامن‘ کے مطابق احتجاج کے لیے عوامی برداشت کم ہوتی جا رہی ہے، دو تہائی برطانوی اب سمجھتے ہیں کہ کچھ مظاہرے اتنے خلل ڈالنے والے ہیں کہ انہیں ہونے نہیں دینا چاہیے۔ غزہ پر مسلسل احتجاج نے سرگرم کارکنوں کے خلاف ردعمل میں اضافہ کیا ہے۔‘
غزہ جنگ کے آغاز (7 اکتوبر 2023) سے اب تک اسرائیل کے لیے ہمدردی میں کمی آئی ہے۔ سروے میں صرف 14 فیصد افراد اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے، جو نومبر 2023 کے 16 فیصد سے کم ہے۔
فلسطینیوں کے لیے ہمدردی 26 فیصد تھی، 27 فیصد نے کہا کہ وہ کسی طرف نہیں، اور 18 فیصد نے دونوں جانب ہمدردی ظاہر کی۔ باقی غیرفیصلہ کن تھے۔
محققین کے مطابق سخت رائے رکھنے والے لوگ سنہ 2023 کے بعد سے مخالف نقطۂ نظر رکھنے والوں کے بارے میں مزید منفی ہوتے جا رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ مانچسٹر کی ایک عبادت گاہ پر حملے کے بعد 44 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ یہودیوں کے لیے غیرمحفوظ ہے، جبکہ 37 فیصد نے یہی بات مسلمانوں کے بارے میں کہی۔
مور اِن کامن کے ڈائریکٹر لوک ٹرل نے کہا کہ ’(اسرائیل-فلسطین) تنازعے پر تقسیم نے برطانیہ کے میڈیا، اداروں اور سیاست دانوں پر اعتماد کو سنجیدگی سے نقصان پہنچایا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مضبوط رائے رکھنے والے افراد چونکہ مرکزی میڈیا سے دور ہو گئے ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ وہ اپنی پسند کے آن لائن ذرائع تک محدود ہو جائیں، جہاں مشترکہ حقائق پر بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لوگ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ مخالف سوچ رکھنے والوں کی نیت خراب ہے، جیسے کوئی اسرائیل کا حامی ہے تو وہ ضرور مسلمان مخالف ہو گا، یا کوئی فلسطین کا حامی ہے تو وہ یہود مخالف ہو گا۔‘
