Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پولیس سے ہاتھا پائی پر سات برس قید‘، پنجاب اسمبلی میں نئی قانون ترمیم لانے کا فیصلہ

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم پولیس کی حوصلہ افزائی کرے گی (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے پولیس اہلکاروں سے ہاتھاپائی پر سات برس تک قید کی سزا کی منظوری دی ہے۔
اس سزا کا اطلاق پہلے سے موجود اینٹی رائٹ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے کیا جائے گا۔
حکومت نے اس ترمیم کی منظوری دے دی ہے اور اب اس کو پنجاب اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔  
اینٹی رائٹ ایکٹ  میں مجوزہ ترمیم کے بعد  پولیس پر حملہ آور افراد کو سات برس تک کی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکے گا۔
جرمانہ ادا نہ کرنے صورت میں سزا ایک سال تک مزید بڑھا دی جائے گی۔ 
پولیس کو تحفظ
اینٹی رائٹ ایکٹ جسے سرکاری طور پر ’دی پنجاب پروہیبیشن آف رائٹنگ اینڈ انٹی ٹیررزم آرڈیننس‘ کہا جاتا ہے، سنہ 2016 میں پنجاب حکومت نے منظور کیا تھا۔
اس کا بنیادی مقصد دہشت گردی، فرقہ وارانہ فسادات اور ہجوم کی مزاحمت کو روکنا تھا۔
یہ قانون پاکستان کے وفاقی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے ساتھ کام کرتا ہے جو سنہ 1997 سے موجود ہے اور ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیوں کے خلاف فوری کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم پولیس کی حوصلہ افزائی کرے گی کیونکہ حالیہ برسوں میں ہجوم کی مزاحمت سے کئی اہلکار ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی پولیس اہلکاروں کے تحفظ کے لیے قانون موجود ہے جیسا کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 353 کے تحت عوامی ملازم (جیسے پولیس) کو ڈرانے یا رکاوٹ ڈالنے پر 2 سال قید یا جرمانہ موجود ہے جبکہ سیکشن 332 عوامی ملازم پر حملہ پر 3 سال قید کا قانون بھی موجود ہے۔

اینی رائٹ ایکٹ کا بنیادی مقصد دہشت گردی، فرقہ وارانہ فسادات اور ہجوم کی بے لگام مزاحمت کو روکنا تھا (فائل فوٹو:اے ایف پی)

اس کے علاوہ وفاقی ’پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014‘ میں افسران پر حملوں کو دہشت گردی سے جوڑتا ہے۔ جس میں 10 سال قید تک کی سزا دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ہمیشہ مؤثر  ثابت نہیں ہوئے کیونکہ ثبوت کی کمی اور عدالتی تاخیر کی وجہ سے ملزمان اکثر رہا ہو جاتے ہیں۔ اینٹی رائٹ ایکٹ کی یہ ترمیم، پولیس پر حملوں کو ’خصوصی جرم‘ کا درجہ دے رہی ہے  جو پاکستان کی قانونی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہے۔ پہلے کارِ سرکار میں مداخلت جیسے قوانین کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن اب یہ الگ سے ’اینٹی رائٹ‘ کے تحت آئے گا جو سزائیں بڑھا کر فوری کارروائی کی اجازت دے گا۔
نئی سزا کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سیاسی اور مذہبی ہجوم نے پولیس اہلکاروں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
حال ہی میں پنجاب پولیس نے ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 2025 کے پہلے 10 ماہ میں ہجوم کی مزاحمت سے 47 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے پانچ کی موت ہو گئی۔
یہ اعداد سنہ 2024 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہیں جہاں 37 زخمی اور تین ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر مئی 2024 میں جھنگ کے قریب ایک چرچ پر ہجوم کے حملے میں 10 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے  جبکہ 2025 میں لاہور اور فیصل آباد میں احتجاجی مظاہروں کے دوران 15 سے زائد واقعات سامنے آئے۔

سنہ 2025 کے پہلے 10 ماہ میں ہجوم کی مزاحمت سے 47 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے پانچ کی موت ہو گئی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس نئی ترمیم میں ہجوم کے ہاتھوں زخمی اور ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں اور افسران کے ورثا لیے فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ ان کی مالی معاونت ہو سکے۔
تاہم انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایڈووکیٹ رضوان علی کہتے ہیں کہ ’پولیس کو پہلے سے ہی قانون میں بہت تحفظ حاصل ہے، اب اس تحفظ کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ غیر ضروری ہے۔‘ ’سزا بڑھانے سے اس کے غلط استعمال کا خدشہ زیادہ ہو گیا ہے۔ حکومت اس وقت جس طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سے شفافیت پر فرق پڑ رہا ہے پہلے سوشل میڈیا سے متعلق قوانین کو سخت کیا گیا اور اب احتجاج کے مقابلے پولیس کو اور طاقت ور کیا جا رہا ہے۔‘

شیئر: