Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سی ڈی اے کا آپریشن، اسلام آباد میں شہریوں کے پالتو کتوں کو بھی پکڑ کر لے جانے کا انکشاف

اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کے لیے سی ڈی اے کے جاری آپریشن کے دوران شہریوں کے پالتو کتوں کو بھی اٹھا کر لے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن وردہ غنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی نسل کشی اور انہیں پکڑ کر لے جانے کے پورے عمل میں کئی بے ضابطگیاں سامنے آرہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں سیکٹر جی الیون اور ایف الیون سے شہریوں کے پالتو کتے جو پہلے سے ویکسین شدہ تھے کو بھی سی ڈی اے کا عملہ اٹھا کر لے گیا۔ 
آوارہ کتوں کو مارنے اور ان کی نسل کشی کے خلاف جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی تھی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ سی ڈی اے کا عملہ مبینہ طور پر پالتو کتوں کو بھی اٹھا کر لے گیا ہے۔
عدالت کے سامنے دو بچیاں بھی پیش ہوئیں جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پالتو کتوں کو سی ڈی اے کے عملے نے اٹھا لیا ہے جس پر عدالت نے متعلقہ افسران کو فوری طلب کر لیا تھا۔
اس موقع پر جسٹس خادم حسین سومرو بھی برہم ہو گئے اور ریمارکس دیے کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے۔
انہوں نے بچیوں سے استفسار کیا کہ اگر وہ کسی افسر کا نام بتا سکتی ہیں، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی انفورسمنٹ سی ڈی اے اس کارروائی کی سربراہی کر رہی ہیں اور رضوان صاحب بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
تاہم اس موقع پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ متعلقہ شہری کو ان کے پالتو کتے واپس مل جائیں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس خادم حسین نے ریمارکس دیے کہ یہ بچیاں خوشی سے تو نہیں آئی ہوں گی۔
ایک بچی نے عدالت کو مزید بتایا کہ وہ سیکٹر جی الیون کی رہائشی ہیں اور ان کی گلی میں اگر کوئی پالتو کتا بھی پایا جائے تو اس کو بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
بچی کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کا عملہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ یہ کسی کا پالتو کتا تو نہیں ہے۔ عدالت نے بچوں کو یقین دلایا کہ اُن کے پالتو کتے اُنہیں واپس کر دیے جائیں گے۔
کارکن وردہ غنی جو آوارہ کتوں کا ایک شیلٹر بھی چلاتی ہیں کا کہنا ہے کہ کئی بار شکایت درج کروائی ہے لیکن سی ڈی اے کی طرف سے کوئی مؤثر جواب نہیں موصول ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی دو تین دن سے سی ڈی اے کے متعلقہ عملے کے پاس جا رہے ہیں لیکن معاملے کو صرف نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
وردہ غنی نے بتایا کہ دو بچیاں، جن کی عمر 15 سے 17 سال کے درمیان ہے نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان  کے سامنے پیش ہوئیں اور اپنی شکایت درج کروائی۔
سماجی کارکن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سی ڈی اے کے شیلٹرز میں کتوں کو مناسب خوراک نہیں دی جاتی، سول سوسائٹی نمائندے اپنی مدد آپ کے تحت پیسے اکٹھے کر کے ان کو کھانا پہنچاتے ہیں۔
جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن انیلہ عمیر نے بھی تصدیق کی کہ کہ انہیں شہر بھر سے اس طرح کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ پالتو کتوں کو بھی اٹھا کر لے جایا گیا اور مالکان کو واپس نہیں کیا گیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی ڈی اے کے شیلٹر ہوم میں کتوں کو بھوکا رکھ کر انہیں بیمار کیا جاتا ہے اس کے بعد انہیں مار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کے علاقے ترلائی میں سی ڈی اے کے قائم کردہ آوارہ شیلٹر سے مردہ کتوں سے بھرے ایک ٹرک کو جاتے دیکھا گیا تھا جس کے بعد سے یہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے ایک مرتبہ پھر سی ڈی اے کے ترجمان سے مؤقف لینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ چونکہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اس لیے وہ کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔
اس سے قبل سی ڈی اے نے کہا تھا کہ کتوں کے ساتھ ایس او پیز کے مطابق ہی سلوک کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ سی ڈی اے نے آوارہ کتوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے لیے ’سٹریٹ ڈاگ پاپولیشن کنٹرول سینٹر‘ قائم کیا ہے جس کا مقصد آوارہ کتوں کو پکڑ کر اُن کی سرجری (نس بندی) اور ویکسینیشن (ٹی این وی آر) کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اُن کے علاقوں میں چھوڑ دینا ہے۔

 

شیئر: