Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر پورٹ اتھارٹی اور چینی کمپنی کا 40 سالہ معاہدہ، مقامی افراد کی شمولیت لازمی قرار

گوادر پورٹ اتھارٹی اور چینی کمپنی کے درمیان 40 سالہ معاہدے کے تحت بندرگاہ کی ترقی، آمدن کی تقسیم اور مقامی روزگار کے اصول طے کر دیے گئے ہیں۔
معاہدے کے مطابق چینی کمپنی گوادر بندرگاہ اور فری زون کی تعمیر و آپریشن کرے گی جبکہ بندرگاہ کی ملکیت پاکستان کے پاس ہی رہے گی اور آمدن کا ایک حصہ ہر ماہ گوادر پورٹ اتھارٹی کو ملتا رہے گا۔ اس شراکت داری سے گوادر میں ترقیاتی کاموں، سرمایہ کاری اور مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب معاہدے کی دستاویز کے مطابق معاہدے میں ایسی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں جن کے تحت معاہدے کی مدت میں فریقین کے درمیان تنازع یا کسی قدرتی آفت کی صورت میں وقت کے اضافے کی گنجائش موجود رہے گی۔ تاہم معاہدے کی مدت میں اضافہ ایک طے شدہ حد کے اندر رہے گا اور اس کا مطالبہ فریقین یک طرفہ طور پر نہیں کر سکیں گے۔
اس معاہدے کی اہم ترین خصوصیت گوادر بندرگاہ کی آمدن کی شراکت ہے جس کے تحت تین مختلف کمپنیوں کے ذریعے ہونے والی آمدن میں گوادر پورٹ اتھارٹی کا مخصوص حصہ طے کیا گیا ہے۔
گوادر انٹرنیشنل ٹرمینل لمیٹڈ اور گوادر میرین سروسز کمپنی کی مجموعی آمدن میں سے 9 فیصد براہ راست جی پی اے کو دیا جائے گا جبکہ 90 فیصد سے زائد حصہ چینی کمپنی کو ملے گا۔ اسی طرح گوادر فری زون کمپنی کی آمدن میں جی پی اے کا حصہ 15 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ باقی 50 فیصد چین کی کمپنی کے حصے میں جائے گا۔
 یہ ادائیگیاں ہر ماہ تجارتی سرگرمیوں کے آغاز کے بعد ایک ہفتے کے اندر کرنا لازم قرار دی گئی ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو بندرگاہ سے مستقل بنیادوں پر آمدن حاصل ہوتی رہے گی، چاہے منافع کی شرح زیادہ تر آپریٹر کمپنی کو ملتی ہو۔
معاہدے میں گوادر کے مقامی لوگوں کی شمولیت اور علاقائی ترقی کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ معاہدے کے مطابق چینی کمپنی پر لازم ہے کہ وہ گوادر کے عوام، خصوصاً مقامی باشندوں کو روزگار دینے میں ترجیح دے اور بندرگاہ کے بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر اپنی سرمایہ کاری کے تحت کرے۔
گوادر فری زون کی ترقی اس معاہدے کا مرکزی نقطہ قرار دیا گیا ہے جس کا مقصد پاکستانی اور چینی کاروباری اداروں کے لیے صنعتی و تجارتی مراکز قائم کرنا ہے۔ فری زون کمپنی کی تشکیل میں چینی کمپنی کو کم از کم 10 فیصد حصص رکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاہم اسے اس حق کے ساتھ مکمل شیئر فروخت کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے، جبکہ پورٹ آپریشنز میں اسے 51 فیصد تک شیئر برقرار رکھنا لازم قرار دیا گیا ہے تاکہ بندرگاہ کے انتظامی کنٹرول میں وہ اہم کردار ادا کرتی رہے۔
معاہدے کے تحت گوادر بندرگاہ کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں وفاقی حکومت اور چینی کمپنی کے درمیان تقسیم کی گئی ہیں۔ بین الاقوامی شپ اینڈ پورٹ فیسلٹی سکیورٹی (آئی ایس پی ایس) کوڈ کے مطابق مجموعی سکیورٹی کی نگرانی حکومت پاکستان کرے گی جبکہ پورٹ احاطے کے اندرونی انتظامات، نگرانی، آلات اور عملے کی فراہمی چینی کمپنی اپنی لاگت پر انجام دے گی۔
اسی طرح فری زون ایریا کی سکیورٹی سمیت تمام پیشہ وارانہ انتظامات کی فراہمی بھی کمپنی کے ذمہ رہیں گے۔ غیر معمولی حالات میں اضافی سکیورٹی فورسز حکومت فراہم کر سکے گی تاہم ان دستوں کا کنٹرول چینی کمپنی کے بجائے ریاست کے پاس ہوگا۔
اس معاہدے کے باوجود بندرگاہ اور متعلقہ زمین کی ملکیت پاکستان کے پاس برقرار رہے گی اور تمام خودمختار اختیارات حکومت کے پاس رہیں گے۔ گوادر پورٹ اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں پانی کے راستوں میں گہرائی برقرار رکھنا، بحری راستوں کے بریک واٹرز کی دیکھ بھال، نیوی گیشن سسٹمز، سمندری حفاظتی آلات کی تنصیب و مرمت شامل ہیں۔
اس کے ساتھ جی پی اے پر لازم ہے کہ بندرگاہ کی سکیورٹی کے لیے پانی کے اندر اور لنگرگاہ کے اطراف حکومتی معیار کے مطابق حفاظتی انتظامات مہیا کرے۔
حکام کے مطابق چین کے ساتھ یہ مراعاتی معاہدہ گوادر کو مستقبل میں خطے کی ایک اہم تجارتی گزرگاہ بنانے کی بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔ آمدن کی کم شرح کے باوجود پاکستان کو مستقل مالی فوائد، ہزاروں مقامی ملازمتوں کے مواقع، سرمایہ کاری، صنعتوں کی ترقی اور علاقائی بحری تجارت سے منسلک اہمیت حاصل ہونا ممکن ہے۔
گوادر فری زون کی ترقی کے نتیجے میں پاکستان اور چین کے درمیان صنعتی و تجارتی تعاون میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ یہ علاقہ وسطی ایشیائی ریاستوں، خلیجی ممالک اور افریقہ تک پاکستانی رسائی کا ذریعہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) اور چین اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ (سی او پی ایچ سی ایل) کے درمیان  معاہدے کا اطلاق پچھلی تاریخ سے 6 فروری 2007 سے کیا گیا۔ اس طویل المدتی معاہدے کی مدت 40 سال ہے، جس کے تحت چینی کمپنی کو گوادر پورٹ کے آپریشنز اور ترقیاتی امور کی ذمہ داری سونپی گئی، جبکہ بندرگاہ کی ملکیت پاکستان کے پاس برقرار رہے گی۔

 

شیئر: