اسلام آباد میں ملپور اور بری امام کی آبادیاں غیرقانونی قرار، تنازع کیا ہے؟
اسلام آباد میں ملپور اور بری امام کی آبادیاں غیرقانونی قرار، تنازع کیا ہے؟
اتوار 23 نومبر 2025 5:33
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سی ڈی اے نے ملپور میں غیرقانونی آبادی کو فوری طور پر جگہ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقوں ملپور اور بری امام کی بستیاں ایسے تنازعے میں گھری ہوئی ہیں جس میں زمین، قانون، شہری منصوبہ بندی، انتظامی اختیارات، انصاف اور انسانی حقوق آپس میں الجھ گئے ہیں۔
ایک طرف ریاستی رٹ اور قواعد کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب وہاں برسوں سے آباد ہزاروں افراد ایسے فیصلے کا سامنا کر رہے ہیں جس سے نہ صرف وہ بے گھر اور بے روزگار ہو سکتے ہیں بلکہ انہیں اپنا علاقہ بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔
معاملہ کچھ یوں یے کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے اسلام آباد کے علاقے ملپور میں غیرقانونی آبادی کو فوری طور پر جگہ خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’مقررہ مدت میں علاقہ خالی نہ کیے جانے کی صورت میں سی ڈی اے کی بھاری مشینری کے ساتھ آپریشن کیا جائے گا، جبکہ مزاحمت یا عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار افراد کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی، ایک برس تک قید اور بھاری جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔‘
سی ڈی اے کے ڈپٹی کمشنر/سینیئر سپیشل مجسٹریٹ سردار آصف کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’ملپور کے دونوں اطراف موجود غیرقانونی تعمیرات، کچی آبادیوں اور تجاوزات کو فوری ہٹایا جائے۔‘
’متعلقہ قوانین کے تحت اتھارٹی کو اختیار ہے کہ وہ غیرقانونی تعمیرات کو منہدم کرے اور زمین کو سرکاری تحویل میں لے۔‘
حکام کے مطابق عدالت کی ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے غیرقانونی رہائش اور غیرقانونی تعمیرات میں ملوث قابضین کو آخری انتباہ جاری کر دیا گیا ہے۔ مقررہ وقت گزرنے کے بعد ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ بری امام کی غیرقانونی آبادی کے خلاف جاری آپریشن کے ساتھ ساتھ ملپور کی غیرقانونی آبادی کو بھی خالی کرایا جائے گا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تجاوزات نہ صرف ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہیں بلکہ شہری منصوبہ بندی اور ماحولیات کے لیے بھی رکاوٹ بن رہی ہیں۔
دوسری جانب متاثرہ شہریوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں آبادی خالی کرنے کے لیے مناسب وقت اور متبادل انتظامات فراہم کیے جائیں۔ تاہم سی ڈی اے کا موقف ہے کہ متعدد بار نوٹسز اور انتباہات کے باوجود تعمیرات میں توسیع کی جاتی رہی، جس کے باعث اب کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔
حکام نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ قانونی پیچیدگیوں، بھاری جرمانوں اور گرفتاری سے بچنے کے لیے مقررہ مدت میں علاقہ خالی کر دیا جائے۔
اسلام آباد کے قیام کے بعد جب دارالحکومت کے ماسٹر پلان اور زوننگ قوانین کا اطلاق ہوا تو کچھ علاقے محفوظ ماحولیات اور جنگلات کے زون میں شامل ہوئے، کچھ کو سرکاری استعمال کے لیے مختص کیا گیا اور کچھ جگہوں پر تعمیرات ممنوع قرار پائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی بڑھی، کچے مکانات پکے ہونے لگے اور پھر کمرشل سرگرمیاں بھی شروع ہونے لگیں، تو بعض علاقوں میں یہی عمل مستقبل میں اس تنازع کی بنیاد بنا کہ لوگوں نے پہلے عارضی بستیاں بسائیں اور پھر انہیں مستقل آبادیوں میں تبدیل کر دیا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تجاوزات نہ صرف ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہیں بلکہ شہری منصوبہ بندی اور ماحولیات کے لیے بھی رکاوٹ بن رہی ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)
جب بھی ان آبادیوں کے خلاف ایکشن ہوا تو وہاں مقیم افراد نے عدالتی حکم امتناعی کا سہارا لے لیا۔
سی ڈی اے کا موقف ہے کہ ان علاقوں میں ہونے والی تعمیرات نہ صرف غیرمنظور شدہ ہیں بلکہ بڑی تعداد سرکاری یا محفوظ زمینوں پر قائم ہے۔
ادارے کے مطابق یہ تعمیرات ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں، جنگلات اور ہریالی کم ہوتی ہے، پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ آتی ہے، سکیورٹی خدشات جنم لیتے ہیں اور ماسٹر پلان مکمل طور پر نظرانداز ہو جاتا ہے۔ اسی موقف کی بنیاد پر مختلف ادوار میں انسدادِ تجاوزات کے فیصلے کیے گئے، متعدد گھروں اور دکانوں کو مسمار کیا گیا، سینکڑوں لوگوں کو نوٹس جاری ہوئے اور کئی علاقوں میں کئی کئی بار آپریشن کیے گئے۔
دوسری جانب ان علاقوں میں رہنے والے لوگ اس معاملے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ کئی خاندان یہاں دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں۔ کچھ کے مطابق ان کے بڑوں نے یہاں زمین خریدی تھی، کچھ کے پاس تحریری ثبوت تو نہیں مگر ان کا دعویٰ ہے کہ نسلوں سے کاشت کاری، رہائش اور سماجی روابط کے باعث یہی ان کی شناخت اور گھر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب اسلام آباد وجود میں آیا تو نئی سرکاری حد بندیوں نے ان موجودہ آبادیوں کو اچانک ’غیرقانونی‘ بنا دیا۔ پھر برسوں تک کسی نے تعمیرات روکی بھی نہیں؛ بجلی اور گیس کے کنکشن دیے گئے، سیاسی شخصیات نے ووٹ لیے، سرکاری سکول اور مراکز قائم رہے۔
متاثرین سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر حکومت خود سہولیات دیتی رہی تو پرانی آبادیوں کو آج کیسے بے دخلی کا نوٹس دیا جا سکتا ہے؟
جب بھی ان آبادیوں کے خلاف ایکشن ہوا تو وہاں مقیم افراد نے عدالتی حکم امتناعی کا سہارا لے لیا۔ (فائل فوٹو: فری پک)
یہ معاملہ صرف نوٹس اور آپریشن تک محدود نہیں رہا۔ مختلف برسوں میں یہ تنازع عدالتوں تک پہنچا۔ کچھ متاثرین نے عدالت سے حکمِ امتناع لیا، کچھ کو زمین پر قبضے کا قانونی حق ثابت کرنے کے لیے سالہا سال مقدمات لڑنے پڑے۔ عدالتوں نے بعض کیسز میں سی ڈی اے کو حدود کی نشاندہی کرنے، زمین کی پیمائش درست کرنے اور شہری منصوبہ بندی قانون کے مطابق عمل کرنے کے احکامات بھی دیے۔
اگرچہ عدالتیں تجاوزات کے خلاف کارروائی کو قانونی قرار دیتی رہی ہیں، مگر ساتھ ہی انہیں یہ بھی ہدایت کرتی رہی ہیں کہ کسی بھی بے دخلی سے قبل متاثرہ خاندانوں کے حقوق اور ممکنہ متبادل پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔