Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہیرو بننے کی خواہش رکھنے والے سلیم خان جنہوں نے سکرپٹ رائٹر بن کر انڈین سینما کی تاریخ بدل دی

سلیم خان کا گھر محبت اور وسیع قلبی کا مرکز رہا۔ (فائل فوٹو: ارباز خان انسٹاگرام)
کوئی پوچھے کہ راجیش کھنہ کی فلم ’ہاتھی میرے ساتھی‘ اور ’انداز‘ امیتابھ بچن کی ’زنجیر‘، ’دیوار‘ اور ’ترشول‘، ہیما مالنی کی ’سیتا اور گیتا‘، دھرمیندر کی’یادوں کی بارات‘ کے علاوہ ’شعلے‘، اور ’کرانتی‘ جیسی ملٹی سٹارر فلم اور انیل کپور کی ’مسٹر انڈیا‘ میں کیا چیز مشترکہ ہے تو شاید اس کا جواب بہت آسان نہیں تو بہت مشکل بھی نہیں ہے۔
یہ سب فلمیں معروف سکرپٹ رائٹر اور بالی وڈ کی سب سے کامیاب جوڑی سلیم، جاوید کے قلم کا جادو ہیں۔ ان دونوں نے ایک ساتھ 24 فلمیں لکھیں جن میں سے 20 انتہائی کامیاب رہیں۔
آج ہم اس جوڑی کی نہیں بلکہ اس جوڑی کے پہلے نام سلیم خان کا ذکر کر رہے ہیں کیونکہ وہ آج ہی کے دن پورے 90 برس قبل اس دنیا میں آئے۔
اندور کی خاموش گلیوں میں سنہ 1935 کی ایک سرد صبح کو پیدا ہونے والے لڑکے سلیم نے شاید خود بھی کبھی نہ سوچا ہوگا کہ وہ ایک دن انڈین سینما کی تاریخ بدل کر رکھ دیں گے۔
وہ تاج برطانیہ کے زمانے میں ایک بڑے خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان کوئی 200 برس قبل افغانستان کے ایک قبائلی علاقے سے نکل کر وسطی ہندوستان کے شہر اندور میں آ بسا تھا۔
ان کے والد تاج برطانیہ میں پولیس کے عہدے پر فائض ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچے جو کہ کسی بھی ہندوستانی کو ملنے والا سب سے بڑا عہدہ ہوا کرتا تھا۔
سلیم خان کا بچپن ناز و نعم میں گزرا، جوانی آئی، اور پھر سنہ 1960 کے آس پاس انہوں نے ایک فیصلہ کیا جس نے ان کی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ’بمبئی جاؤں گا، فلموں میں کام کروں گا۔‘
سلیم خان نے فلموں کا خواب دیکھنے والے کسی بھی دوسرے نوجوان کی طرح ہیرو بننے کے لیے بمبئی کا رخ کیا تھا لیکن بمبئی نے انہیں گلے نہیں لگایا کیونکہ یہ شہر کسی کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔
سلیم خان نے ابتدا میں اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور تقریباً ڈیڑھ دو درجن فلموں میں کام بھی کیا لیکن جس کامیابی کی انہیں تلاش تھی وہ انہیں نہیں مل سکی۔ وہ دلبرداشتہ ہو گئے۔ ان کے مطابق ناکام ہو کر اندور واپس جانا ان کے لیے اور بھی زیادہ تلخ تھا۔
بالی وڈ نے سلیم خان سے زیادہ قسمت میں یقین رکھنے والے کسی دوسرے مشاہیر کو شاید نہیں دیکھا ہے۔ اور یہ بھی اتفاق ہے کہ وہ تو ہیرو نہ بن سکے لیکن ان کے تینوں بیٹے ہیرو بنے اور سلمان خان تو گذشتہ 30 برس سے فلم انڈسٹری میں سپر سٹار کی ریس میں ہیں اور ایک طرح سے انڈین فلم انڈسٹری پر راج کر رہے ہیں۔

سلیم خان کا بچپن ناز و نعم میں گزرا، جوانی آئی، اور پھر انہوں نے ایک فیصلہ کیا جس نے ان کی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ (فائل فوٹو: مڈ ڈے)

بہرحال جب سلیم خان کو بطور اداکار کامیابی نہیں ملی تو اس موقعے پر انہوں نے اپنی زندگی پر از سر نو سوچنا شروع کیا۔ اس دوران وہ اکثر ادیبوں اور مصنفوں کی محفل میں پائے جاتے۔ انہی دنوں ان کی ملاقات معروف سکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار ابرار علوی سے ہوئی جنہوں نے انہیں کہانی اور سکرین پلے کی دنیا میں جھانک کر دیکھنے کا موقع دیا۔
یہ وہی ابرار علوی ہیں جنہوں نے ’صاحب بی بی اور غلام‘ کی ہدایت کاری کی تھی اور گرو دت کی زیادہ تر فلموں کے سکرین پلے لکھے تھے۔ جن میں ’پیاسا‘، ’آر پار‘، ’کاغذ کے پھول‘ وغیرہ شامل ہیں۔
یہی موقع تھا جس نے ایک اداکار کو ایسا مصنف اور سکرین پلے رائٹر بنا دیا جو ان سے آگے نکل گیا۔
سلیم، جاوید کی جوڑی نے فلمی دنیا کو بدل کر رکھ دیا
کہتے ہیں ایک دن سنہ 1966 میں فلم ’سرحدی لٹیرا‘ کے سیٹ پر قسمت نے ایک دلچسپ کھیل کھیلا۔ سلیم خان وہاں اپنے شاٹ کے لیے موجود تھے کہ ایک ذہین لڑکا جاوید اختر وہاں مکالمے لکھنے کے لیے پہنچا ہوا تھا۔
دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلی ہی گفتگو میں دونوں کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کہانی کو ایک ہی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ گفتگو دوستی میں بدلی، اور دوستی شراکت داری میں۔
گذشتہ برس امیزون پرائم ویڈیو نے سلیم،جاوید کی جوڑی پر تین قسطوں پر مشتمل ایک ڈاکومینٹری ’دی اینگری ینگ من‘ بنائی جس میں انہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔
جاوید اختر نے ایک بار بتایا کہ ’مجھے پہلی سکرپٹ کے 50 روپے ملے، پھر 100 روپے ملے، اور سلیم صاحب ہمیشہ کہتے تھے، لکھتے رہو، تم میں صلاحیت ہے۔‘

امیزون پرائم ویڈیو نے سلیم،جاوید کی جوڑی پر ایک ڈاکومینٹری بنائی جس میں دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس زمانے میں عام رواج یہ تھا کہ سکرپٹ رائٹرز کو کریڈٹ نہیں دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر ان دونوں کو ایک بڑا موقع ملا اور انہیں ایک پروجیکٹ کے لیے پانچ ہزار روپے ملے۔ جو اس وقت ان کے لیے کسی ’جیک پاٹ‘ سے کم نہیں تھا۔
لیکن یہ تو بس ابتدا تھی۔
سلیم خان کہتے ہیں کہ ان کی قسمت اس دن کھلی جب اپنے زمانے کے سپر سٹار راجیش کھنہ نے انہیں ایک آفر دی۔ وہ بتاتے ہیں راجیش کھنہ نے ان سے کہا کہ ’وہ ایک فلم میں کام کرنے جا رہے ہیں لیکن وہ اس کے سکرپٹ سے مطمئن نہیں ہیں اگر وہ اس کو قابل قبول بنا دیں تو انہیں نہ صرف اس کا اچھا معاوضہ ملے گا بلکہ کریڈٹ میں ان کا نام بھی آئے گا۔‘
جاوید اختر نے ایک انٹرویو میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک دن، وہ (راجیش کھنہ) سلیم صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ مسٹر دیور نے انہیں ایک بہت بڑی سائننگ رقم دی ہے جس سے وہ اپنے بنگلے آشیرواد کی ادائیگی مکمل کر سکتے تھے۔ لیکن یہ فلم ’دیوا چیال‘ کا ریمیک تھی۔‘
’انہوں نے کہا کہ وہ سکرپٹ سے مطمئن نہیں ہیں، اگر وہ اسے درست کر دیتے ہیں تو انہیں پیسہ اور کریڈٹ دونوں ملیں گے۔ اور اس طرح پہلی بار سلیم،جاوید کی جوڑی پردے پر سامنے آئی۔ یہ فلم انتہائی کامیاب رہی اور اس فلم کو ہندی میں پیش کرنے والے جی پی سپی نے اس جوڑی کو سپی فلمز کے لیے بطور ریزیڈنٹ سکرین رائٹرز رکھ لیا۔‘
اس کے ساتھ ہی سلیم،جاوید کا زمانہ شروع ہو گیا جس نے بالی وڈ کو ’اینگری ینگ مین‘ کی شبیہ والے امیتابھ بچن سے متعارف کرایا۔

سلیم،جاوید کی جوڑی نے ایک ساتھ 24 فلمیں لکھیں جن میں سے 20 انتہائی کامیاب رہیں۔ (فوٹو: بالی وڈ پوسٹرز ایکس)

سنہ 1970 کی دہائی میں ہر دوسرا بڑا بینر صرف ایک ہی چیز مانگ رہا تھا، اور وہ تھی سلیم،جاوید کی جوڑی۔ یہ وہ دور تھا جب انہوں نے ’زنجیر‘، ’دیوار‘، شعلے‘، ’ڈان‘، ’سیتا اور گیتا‘، ’یادوں کی بارات‘ جیسی فلمیں دیں۔ یہ وہ فلمیں ہیں جنہوں نے ’اینگری ینگ مین‘ جیسا کردار پیدا کیا اور امیتابھ بچن کو ایک نئے مقام پر لا کھڑا کیا۔
جاوید اختر نے بتایا کہ ان کی شراکت میں اکثر یوں ہوتا کہ سلیم خان کہانی اور کردار تراشتے اور وہ ان میں جان ڈالنے والے مکالمے لکھتے۔
جاوید نے ہمیشہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’سلیم صاحب میرے استاد ہیں۔ سکرین پلے لکھنے کی جو سمجھ مجھے ہے، میں نے ان سے سیکھی ہے۔‘
تاہم تمام تر کامیابیوں کے باوجود ان دونوں میں رفتہ رفتہ فاصلے پیدا ہوتے گئے اور پھر ایک دن خاموشی سے علیحدگی ہو گئی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ایک دن جاوید اختر نے سلیم خان سے کہا کہ وہ علیحدہ کام کرنا چاہتے ہیں تو سلیم خان نے صرف اتنا کہا کہ ’میں اپنا خیال رکھ لوں گا۔‘
انہوں نے نہ تو کوئی لڑائی کی، نہ تنازع کھڑا کیا، نہ شور مچایا بلکہ ان کی علیحدگی سے نہ صرف ایک شراکت داری ختم ہوئی بلکہ ایک دور کا خاتمہ ہو گيا۔
علیحدگی کے بعد سلیم خان نے کم لکھا لیکن ان کی فلم ’نام‘ بہت زیادہ کامیاب ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’جرم‘، ’قبضہ‘، اور ’انگارے‘ جیسی فلمیں لکھیں جبکہ اپنے بیٹے سلمان کے لیے انہوں نے ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ اور ’اوزار‘ نامی فلمیں لکھیں۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق جاوید اختر نے بعد میں کہا کہ ’ہم نے کبھی پیسے یا کریڈٹ پر جھگڑا نہیں کیا۔ ہماری زندگی میں نئے لوگ آئے اور ہماری ذہنی ہم آہنگی آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی۔‘

جاوید اختر نے بتایا کہ سلیم خان کہانی اور کردار تراشتے اور وہ ان میں جان ڈالنے والے مکالمے لکھتے۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

سلیم خان کا گھر محبت اور وسیع قلبی کا مرکز رہا۔ ان کی زندگی میں صرف فلمیں ہی نہیں، محبت بھی تھی۔ انہوں نے سلمٰی خان (سوشیلا چاکرک) سے شادی کی اور دونوں نے مل کر دونوں مذاہب کی روایتوں کو ایک ساتھ نبھایا۔
سلیم خان کہتے ہیں کہ ’ہم نے شادی میں دونوں مذاہب کے رِواج نبھائے۔ میری بیوی کو سات پھیرے بہت پسند تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آج بھی ان کے گھر میں گنیش چترتھی منائی جاتی ہے۔‘
فلمی دنیا میں بہت سے لوگ آئے اور چلے گئے مگر چند نام زمانوں کی حدیں پار کر جاتے ہیں سلیم خان انہی چند میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے سکرین رائٹرز کو پہچان دلوائی، اپنے قلم سے ایک عہد تراشا، اور ایسی کہانیاں دیں جو آج بھی سنی جائیں تو دل میں اترتی ہیں۔
جاوید اختر نے کہا تھا کہ ’دیکھنے والوں کو شاید ہم دو آدمی لگتے ہوں، مگر حقیقت میں ہم ایک زبان بولتے تھے، کہانی کی زبان۔
اور یہی زبان، یہی کہانیاں، سلیم خان کی اصل میراث ہیں اور آج 90 برس کی عمر میں شاید وہ بالی وڈ کے سب سے مطمئن شخص ہیں۔

 

شیئر: