انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کریک ڈاؤن مزید تیز ہو گیا ہے۔
یہ کہانی بلال احمد وانی نامی ایک 55 سالہ خشک میوہ فروش اور ان کے خاندان کے گرد گھومتی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلال احمد وانی کو کشمیر پولیس نے رواں ماہ نئی دہلی میں ہوئے مہلک دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں حراست میں لیا۔
مزید پڑھیں
-
نئی دہلی کار دھماکہ: انڈیا تحقیقات میں اب تک اتنا محتاط کیوں ہے؟Node ID: 897210
اگرچہ انہیں کچھ دیر بعد رہا کر دیا گیا لیکن ان کے بڑے بیٹے (جو کہ ایک طالب علم ہیں) کو حراست میں رکھا گیا۔
بلال احمد وانی کے خاندان کے افراد نے بتایا کہ ان کی رہائی کے چند گھنٹے بعد ہی حراست کی شرمندگی اور شدید ذہنی دباؤ نے بلال احمد وانی کو اس حد تک پہنچا دیا کہ انہوں نے خود کو آگ لگا لی۔
اس واقعے کے بعد انہیں تین ہسپتالوں میں علاج کے لیے لے جایا گیا لیکن وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے۔ ان کے رشتے داروں (جنہیں حکام کی طرف سے انتقامی کارروائی کا ڈر تھا) نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تمام صورتحال خودکشی کا سبب بنی۔
پولیس نے صرف اتنا کہا کہ بلال وانی کی موت ’جلنے کے زخموں‘ کی وجہ سے ہوئی۔
نئی دہلی کے تاریخی لال قلعے کے قریب 10نومبر کو ہوئے دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد انڈین تفتیش کاروں نے فوری طور پر کشمیر پر توجہ مرکوز کی، بڑے پیمانے پر چھاپے مارے، سینکڑوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا اور ہزاروں افراد سے پوچھ گچھ کی۔
بلال احمد وانی کے خاندان نے زور دیا کہ وہ بے قصور ہیں اور حکام ان پر جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں۔
ان کے بیٹے پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے مشتبہ خودکش بمبار کے ساتھ مل کر کام کیا اور اسے تکنیکی مدد فراہم کی۔
نئی دہلی کے دھماکے نے کشمیر میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی کریک ڈاؤن کو جنم دیا جس میں چھاپے، بڑے پیمانے پر پوچھ گچھ اور درجنوں گرفتاریاں شامل تھیں۔
اس کریک ڈاؤن کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سنہ 2019 میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد عائد کی گئی پابندیوں کے بعد سب سے زیادہ سخت ہے۔
ان حالات میں میڈیکل کی خدمات فراہم کرنے والی کمیونٹی میں بھی خوف و ہراس بڑھ گیا ہے کیونکہ حکام ’وائٹ کالر ٹیرر ایکو سسٹم‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔

ایک سابق انٹیلی جنس افسر ایوناش موہاننے نے کہا کہ کشمیریوں میں گہرا غصہ ہے کیونکہ ان کے سیاسی مطالبات پورے نہیں ہوئے اور وہ ’خود کو بے اختیار اور ذلت کا شکار محسوس کرتے ہیں۔‘
انٹرنیشنل کرائمز گروپ کے سینیئر تجزیہ کار پراوِن دونتھی کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 کے فیصلے کے بعد سیاسی بے حسی نے ’خاموش غصے کو بڑھاوا دیا ہے اور عسکریت پسندی میں پھر سے اضافہ ہوا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی دہلی کا یہ سخت کریک ڈاؤن موجودہ عدم تحفظ اور کمزوری کے احساس میں مزید اضافہ کر رہا ہے اور یہ کشمیریوں کی غصے کو کم کرنے کے بجائے مزید بھڑکائے گا۔‘












