Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی دہلی دھماکہ: انڈیا تحقیقات میں اب تک اتنا محتاط کیوں ہے؟

انڈیا نے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد ہونے والے مہلک ترین دھماکے کے ذمہ داروں، ان کے معاونین اور سرپرستوں کو کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم رواں ہفتے پیر کو ہونے والے دھماکے کے بعد، جس میں ہسپتال حکام کے مطابق کم از کم 12 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوئے، حکام نے ابتدائی معلومات کے سوا بہت کم تفصیلات جاری کی ہیں۔
دوسری جانب انڈین میڈیا میں اس سنگین واقعے پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے، جو 22 اپریل کے بعد سب سے شدید حملہ ہے۔ اس سے قبل انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 26 افراد، جن میں اکثریت ہندو شہریوں کی تھی، ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
انڈیا نے 10 نومبر کے دھماکے کو ’سنگدلانہ دہشت گردانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’ملک دشمن عناصر‘ کی جانب سے کیا گیا ہے۔

کیا ہوا تھا؟

پرانی دہلی کے علاقے میں تاریخی لال قلعے کے نزدیک مصروف میٹرو سٹیشن کے پاس ایک کار میں دھماکہ ہوا، یہ وہی علاقہ ہے جہاں وزیراعظم یومِ آزادی کا خطاب کرتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اس واقعے کو ’سازش‘ قرار دیا ہے۔
تاہم کئی اہم حقائق تاحال غیرواضح ہیں، اور ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ گاڑی میں کون موجود تھا، کس نوعیت کا بارودی مواد استعمال ہوا، اور کیا یہی مقام حملہ آوروں کا اصل ہدف تھا۔
یہ بھی واضح نہیں کہ حملہ کسی ملکی گروہ نے کیا یا اس کے غیرملکی ہاتھ تھا۔
دھماکہ اس وقت ہوا جب چند گھنٹے قبل ہی پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کرکے بارودی مواد اور اسلحہ برآمد کیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مشتبہ افراد جیشِ محمد اور اس کے کشمیری دھڑے انصار غزوۃ الہند سے منسلک تھے۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی پولیس نے ان گرفتاریوں کو ’وائٹ کالر ٹیرر‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس گروہ میں ’انتہاپسند پیشہ ور افراد اور طلبہ شامل ہیں جن کا رابطہ بیرونِ ملک موجود ہینڈلرز سے تھا۔‘
تاہم ان گرفتاریوں کو دہلی دھماکے سے جوڑنے کی کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی۔

انڈیا نے کیا ردعمل دیا؟

انسداد دہشت گردی کے ادارے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے تحقیقات کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔
پولیس نے دھماکے کے بعد بڑے پیمانے پر چھاپے مارے ہیں، جن میں کشمیر بھی شامل ہے، اور کالعدم جماعتِ اسلامی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن حکام نے واضح نہیں کیا کہ اس کا تعلق دہلی دھماکے سے ہے یا نہیں۔
اسی دوران فریدآباد کی الفلاح یونیورسٹی سے وابستہ چند ڈاکٹروں سمیت متعدد افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، مگر ان کا تعلق دھماکے سے ہے یا نہیں، اس پر بھی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

انڈیا محتاط کیوں ہے؟

وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ حکومت ’فوری اور جامع تحقیقات‘ کے نتائج کا انتظار کر رہی ہے۔
اپریل میں کشمیر حملے کے بعد انڈیا نے ایک ہی دن میں دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آوروں کے ’سرحد پار روابط‘ تھے، جس کی پاکستان نے تردید کی تھی۔
مئی میں انڈیا نے پاکستان میں کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں چار روز تک شدید جھڑپوں میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہوئے۔
فائر بندی کے بعد مودی نے اعلان کیا تھا کہ ’انڈین سرزمین پر کسی بھی حملے کو جنگ کا اعلان سمجھا جائے گا۔‘
اسی پس منظر میں پیر کے دھماکے پر سخت ردعمل کی عوامی توقعات بہت زیادہ ہیں۔
سکیورٹی ادارے ممکنہ سفارتی اثرات اور ذمہ داری عائد کرنے کے نتائج کے پیش نظر انتہائی محتاط انداز میں تفتیش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب نئی دہلی کی خارجہ پالیسی بھی اس محتاط رویے پر اثرانداز ہو رہی ہے، کیونکہ انڈیا اپنے بڑے تجارتی شراکت دار امریکہ کے ساتھ اہم معاہدہ طے کرنا چاہتا ہے، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تیل کی خریداری پر انڈین مصنوعات پر 50 فیصد محصولات عائد کیے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا سہرا بھی خود کو دیتے رہے ہیں، اور اسلام آباد کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے روابط پر زور دیتے رہے ہیں۔
تاہم انڈین وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ براہِ راست دونوں ممالک کے درمیان طے ہوا، اور نئی دہلی نے کشمیر پر ثالثی کے معاملے میں ہمیشہ کی طرح اپنا اصولی موقف برقرار رکھا ہے۔

 

شیئر: