Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی طالبہ نے کینسر کے مریض بچوں کی مدد کے لیے237 ریال میں روبوٹ بنا لیا

روبوٹ کے ذریعے مریض بچے ورچوئل کلاس روم میں حاضر ہوسکیں گے۔( فوٹو: سبق)
دارالحکمہ یونیورسٹی میں کمپیوٹرسائنس کی طالبہ حنان بنت ثابت نے کینسر کے مرض میں مبتلا بچوں کی تنہائی دور کرنے اور ان پر نفسیاتی دباو کو کم کرنے والا روبوٹ کی ایجاد میں کامیابی حاصل کرلی۔
سبق نیوز کے مطابق حنان بنت ثابتہ نے بتایا’ روبوٹ کی تیاری پر محض 63 ڈالر کے اخراجات آئے ہیں اور یہ ان بچوں کے لیے مفید ہوگا جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث سکول نہیں جاسکتے، ایسے مریض بچے اب اس روبوٹ کے ذریعے ورچوئل کلاس روم میں حاضر ہوسکیں گے۔
سعودی طاالبہ نے اپنے روبوٹ کا نام ’کروم بوٹ‘ رکھا ہے۔ اس ایجاد کی سوچ کینسر میں مبتلا بچوں کے بارے میں رپورٹ پڑھنے کے بعد آئی۔
جس میں بتایا گیا تھا کہ ایسے بچے جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں کیموتھراپی کے لیے جانا پڑتا ہے، ایسے بچے مجموعی طور پر 150 دن کلاس اٹینڈ نہیں کرسکتے جس سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تنہائی کا احساس ان کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
حنان بنت ثابتہ کا مزید کہنا تھا ’عام طور ایسے بچوں کے لیے عالمی سطح پر دیگر حل ہیں تاہم وہ بہت گراں ہوتے ہیں جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتے۔ اسی فکر نے مجھے اس جانب سوچنے پر مجبور کیا اور بالاخر اس میں کامیاب ہو گئی۔’

سعودی طاالبہ نے اپنے روبوٹ کا نام ’کروم بوٹ‘ رکھا ہے۔ (فوٹو: سبق)

 روبوٹ ’کروم بوٹ‘ کے بارے میں  سعودی طالبہ کا کہنا تھا’ یہ ایک سمارٹ سکرین پر مشتمل ہے جس کے سٹینڈ میں فکس کیے جانے والے راڈ ہاتھوں کا کام دیتے ہیں جبکہ آنکھوں کی جگہ ایل ای ڈیز لگائی گئی ہیں جو روشن ہوتی ہیں جس سے احساسات کی عکاسی ہو سکتی ہے۔‘
’روبوٹ کے ذریعے مریض بچہ آن لائن اپنی کلاس میں حاضر ہوسکتا ہے بلکہ وہ کلاس میٹ اور ٹیچر سے بھی براہ راست بات چیت بھی کرسکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا’ روبوٹ کی تیاری کےلیے معمولی اشیا کا استعمال کیا گیا جن میں تھری ڈی پرنٹر شامل ہے جبکہ اس کی تیاری پر صرف 237 ریال خرچ آئے ہیں امید ہے اسے 300 ریال تک فروخت کیا جاسکے گا۔‘
ایجاد کے بارے میں سعودی طالبہ کا کہنا تھا ’مستقبل میں اسے مصنوعی ذہانت کے ذریعے اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے جو مختلف عمر کےلیے کارآمد ہوسکے۔‘
روبوٹ کی کمرشل تیاری کے بارے میں ان کا کہنا تھا’ توقع ہے کہ آئندہ برس 2026 میں ایسا ممکن ہوسکے گا۔‘

 

شیئر: